×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

امریکا کی نیپال کو فاریسٹ فائرڈیٹیکشن سسٹم فراہم کرنے میں مدد

by Saleem Shaikh and Sughra Tunio | @saleemzeal | Thomson Reuters Foundation
Thursday, 16 May 2013 14:53 GMT

NASA satellites provide data used to alert Nepalese forest officers to fires via mobile phone, in an effort to speed up response

سیتی دیوی، کھٹمنڈو (تھامسن رائٹرز فائونڈیشن) - ہرا پُلامی اپنے گاوں میں اگلے ماہ لگنے والی جنگل کی آگ سے پائین کے درختوں کے جلنے کی وجہ سے گہرے صدمے سے دوچار ہے۔ مگر اب وہ امید کرتے ہیں کہ نیپال میں جنگل کی آگ کو اُسے کے لگنے کے کچھ ہی منٹوں کے بعد خوج لگانے کے متعلق حال ہی میں متعارف ہونے والے سسٹم سے ایسے واقعات کو فوری ضابطے میں لایا جاسکتا ہے۔

انہوں نے کہا جلے ہوئے درختوں کی طرف اشارہ کرتے ہوے کہا، " میں نے یہاں پریہ درخت تیس سال پہلے اپنے ہاتھوں سے لگائے تھے جو اپریل کے ماہ میں لگنے والی جنگل کی آگ سے ختم ہوگئے۔ وہ میرے بچوں کی طرح تھے اور میں نے ان کو اپنے بچوں کی طرح پالا تھا۔"

سیتی دیوی نیپال کے فطرتی مناظر سے مالامال ایک خوبصورت اور حسین گاوں ہے، جو کھٹمنڈو سے سولہ کلومیٹر جنوب مغرب میں واقع ہے۔ یہ گاوں ایک مشہور سیاحتی مقام اور پُرانے ترین پائین کے درختوں کی وجہ سے مشہور ہے۔

اُس وقت پُلامی سورہے تھے جس وقت چودہ اپریل کی رات کو اچانک جنگل میں، جہاں وہ اپنے خاندان کے ساتھ رہتے ہیں، آگ بھڑک اُٹھی جو تقریبا چھتیس گھنٹے تک مسلسل جلتی رہی۔

چالیس سالہ پُلامی نے تھامسن رائٹرز فائونڈیشن کو بتایا کہ آرمی، پولیس اور فائر برگیڈ کے جوان تقریبا اکیس گھنٹے کے بعد اُس آگ کو قابو پانے کے لئے پہنچے۔ اس دیر کی وجہ اُس آگ لگنے والی جگہ کی طرف جانے والا ناہموار راستہ تھا۔ 

ان کا کہنا تھا کہ آگ اتنی تیز تھی کے کچھ گھنٹوں میں ساتھ والے دو اور شھشھ نارائن اور چھائے مالے پہاڑی دیہاتوں کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا۔

ہرہ پُلامی نے نے کہا کہ مقامی لوگوں نے اُس آگ پر قابو پانے کے لیے ہر ممکن کوشش کی مگر وہ ناکام رہے کیونکہ لوگ ناکافی تھے۔

انہوں نے دل سوز آواز میں کہا کہ سیکڑوں پائین کے درختوں کے ساتھ قدرتی جڑی بوٹیاں بھی جل کر راکھ ہوگئی تھیں۔

ایک ہزار جنگل کی آگ کے واقعات صرف مارچ میں

ڈپٹی سُپرنٹنڈنٹ پولیس گرو بشنو کفلے نےبائیس اپریل کو نیپال میں غیرسرکاری کانتیپُورٹی وی کو بتایا کہ صرف مارچ مہینے کے دوران تقریبا ایک ہزار فاریسٹ فائر کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ جس کی وجہ سے کمیونٹی اور پبلک فاریسٹ کے ساتھ ساتھ پروٹیکٹڈ اریاز میں واقع جنگلات کو بھی کافی نقصان پہنچاہے۔

نیپال میں فاریسٹ فائرسیزن مارچ میں شروع ہوجاتی ہے اور آگست کے درمیان تک جاری رہتی ہے۔ تقریبا ساٹھ فیصد فاریسٹ فائر واقعات مارچ اور اپریل کے مہینوں کے دوران ہوتے ہیں۔ بڑھتے ہوئے فاریسٹ فائر کے واقعات کی ایک اہم وجہ نیپال میں گھٹتے ہوئے جنگلات اور اربنائیزیشن کی وجہ سے بڑھتی ہوئے درجہء حرارت ہے۔

فاریسٹ فائر مینجمنٹ نیٹورک کے نیپال چیپٹر کے مطابق، تقریبا دولاکھ اُنتالیس ہزار ہیکٹرز پر کھڑے جنگلات صرف ۲۰۱۰-۲۰۰۹ میں آگ کی نظر ہوگئے ہیں۔ 

بڑھتے ہوئے درجہء حرارت

کٹھمنڈو کے ملحقہ پہاڑی علاقوں میں بڑھتے ہوئے درجہء حرارت، جس کی خاص وجہ جنگلات کی کٹائی اور اربنائیزیشن ہے، فاریسٹ فائربڑھتے ہوئے واقعات کی خاص وجہ بن گئے ہیں۔

پُلامی کہتے ہیں کہ کئی سال پہلے سرد موسم اپریل کی درمیان تک جاری رہتے تھے، مگر اب گرم موسم مارچ کی درمیان سے ہی شروع ہوجاتے ہیں، جس کی وجہ سے فاریسٹ فائر کے واقعات میں بھی تیزی آرہی ہے۔ 

وہ کہتے ہیں کہ اگلے ماہ کے دوران میرے گاوں سیتی دیوی میں لگنے والی آگ میر چالیس سالہ زندگی کے آخری تین سالوں میں ہونے والہ چوتھا واقعہ ہے۔

انہوں نے کہا، "اب مجھے خوشی ہورہی ہے کہ ایک ایس ایم ایس الرٹ سروس کی وجہ سے مجھے نیپال میں میرے گاوں کے ساتھ ساتھ کہیں بھی لگنے والی آگ کے مطعلق بیس منٹوں کے اندر آگاہی مل سکتی ہے۔" "یہ سروس واقعی شانداراور حیران کُن ہے۔ اس سے ہمیں آگ کو شروع میں ہی اُس کو قابو پانے میں مدد ملے گی۔ کیونکہ فاریسٹ فائرشروع میں چھوٹے پیمانے پر ہوتی ہیں۔"

امریکی مدد

فاریسٹ فائر ڈیٹیکشن اور مانیٹرنگ سسٹم، جو نیپال میں اب کہیں بھی لگنے والی آگ کی خوج لگا سکتا ہے، مارچ ۲۰۱۲ میں پہلے تجرباتی بنیادوں پرنیپال کے کچھ ضلعوں میں شروع کیا گیا تھا جو ایک سال تک جاری رہا۔ 

یہ پروگرام انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ ماونٹین ڈوولپمینٹ یا ایسیموڈ نے امریکا کی نیشنل ائروناٹیکل ائینڈ اسپیس ایڈمینسٹریشن یعنے ناسا کی تکنیکی مدد اور یوایس ایڈ کی مالی مدد سے شروع کیا گیا ہے۔ 

یہ سسٹم جو، ایسیموڈ کے دفتر جو کٹھمنڈو میں واقع ہے، پر نصب کیا گیا ہے جو ناسا کی سیٹلائیٹ میں نصب ماڈریٹ رزالیوشن امیجنگ سپیکٹرو ریڈیومیٹر یعنے موڈس انسٹرومنٹ سے فاریسٹ فائر کےمطعلق ڈیٹا ڈائون لوڈ کرتا ہے۔ یہ سسٹم جیوگرافک انفارمیشن سسٹم اور ریموٹ سینسنگ ٹیکنالاجی کی مدد سے کام کرتا ہے۔

۲۰۱۲ میں کامیاب تجربے کے بعد ایسیموڈ نے اس فاریسٹ فائر ڈیٹیکشن اور مانیٹرنگ سسٹم کو اس سال اپریل کے آخری ہفتے میں نیپال کی منشٹری آف فاریسٹ اینڈ سوئل کنزرویشن کے تعاون سے ملک کے تمام پچہترضلعوں میں شروع کردیا ہے۔ 

فاریسٹ فائر ڈیٹیکشن اور مانیٹرنگ سسٹم منصوبے کے سُدیپ پردھان نے تھامسن رائیٹرز فائونڈیشن کو ایک انٹرویومیں اس سسٹم کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اب اس سسٹم کی مدد سے تقریبا دوسو سبسکرائیبر کوفاریسٹ فائر ایس ایم ایس الرٹ بیجھا جاتا ہے، جس میں تمام ضلعوں کے فاریسٹ افسران، عملہ، مقامی لوگ اور فیڈریشن آف کمینونٹی فاریسٹ یوزرس گروپ کے اہم اہلکار شامل ہیں۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ، "نیپال میں وسیع ترعلاقہ جو جنگلات پر مشتمل ہے کو دیکھتے ہوئے یہ سسٹم فاریسٹ فائرکے واقعات سے نمٹنے اور کم کرنے کے لیے انتہائی اہمیت کا حامل ہے، جس کی مدد سے حقیقی طور پر فاریسٹ فائر کو خوج لگاکر آگ سے متاثرہ علاقے کی مانیٹرنگ اور اسیسمنٹ کی جاسکتی ہے۔" 

سُدیپ پردھان نے کہا کہ یہ سسٹم، جو ناسا کی دو ٹیرا اور آکوا سیٹلائٹس پر منحصر ہے، اتنا تو موثر ہے کہ پندرہ سے بیس منٹوں کے اندر اندر کہیں بھی آگ کی خوج لگاسکتاہے۔

موثر ریسپانس

فاریسٹ مینجمنٹ آفیسر پشوپتی کوئیرالا نے کہا کہ یہ سسٹم ہمارے تمام گراونڈ عملے کی فاریسٹ فائر کے واقعات سے نمٹنےمیں بہت مددگار ثابت ہوگا، خاص کر جو پرٹیکٹڈ علاقو٘ میں معمور ہیں۔ 

پشوپتی کوئیرالا نے کہا، "فاریسٹ فائر ڈیٹیکشن اور مانیٹرنگ سسٹم کے نوٹیفیکیشن الرٹ انتہائی اہم ہیں اس لیے ہیں کہ ان میں جیوگرافیکل ڈیٹیل شامل ہوتیں ہیں، جس سے آگ کی جگہ کا پتا چل جاتا ہے۔"

کنسلٹیٹو گروپ آن انٹرنیشنل اگریکلچر ریسرچ کے ایک ساوتھ ایشیا پروگرام کے سربراہ پرامود کمار اگروال نے اس پرگرام کی بے حد تعریف کی ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ اس پرگرام کی کامیابی صرف اور صرف بروقت کاروائی میں ہے۔ کیونکہ اگر فاریسٹ ڈپارٹمنٹ فاریسٹ فائر ڈیٹیکشن اور مانیٹرنگ سسٹم کے نوٹیفیکیشن الرٹ کے بعد برقت کروائی نہیں کرتا تو ایسے سسٹم کا بحی کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ 

ایسموڈ کے بردھان نے مزید بتایا کہ ایسے منصوبے پر کام ہورہا ہے جس کے تحت یہ فاریسٹ فائر ڈیٹیکشن اور مانیٹرنگ سسٹم ساوتھ ایشیا کے دوسرے ممالک کو فراہم کی جائے گی۔ اس وقت اس سسٹم کے ھوالے سے بنگلادیش اور بھوٹان کے ساتھ کام کررہے ہیں، جن کو یہ ٹیکنالاجی جلد فراہم کردی جائے گی۔

"اس کےعلاوہ، ایسیموڈ اُن ممالک کے فاریسٹ ڈپارٹمنت کے عملے اس فاریسٹ فائر ڈیٹیکشن اور مانیٹرنگ سسٹم کو چلانے کے سلسلے میں تربیت بھی فراہم کرے گا۔"

سلیم شیخ اور صغرا تنیو اسلام آباد میں موسمیاتی تبدیلی اور ڈوولپمنٹ رپورٹرز ہیں۔

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->