×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

پاکستان کو شدید گرمی کی لہر کا سامنا

by Saleem Shaikh and Sughra Tunio | @saleemzeal | Thomson Reuters Foundation
Tuesday, 4 June 2013 12:15 GMT

Deaths are on the rise as temperatures soar across the country, hitting 51 degrees Celsius (124 Farenheit) in southern Sindh province

اسلام آباد، پاکستان (تھامسن رائٹرز فائونڈیشن) پاکستان میں مئی کے دوران ریکارڈ گرمی کی وجہ سے زُلیخان ممتاز کے اونٹنی کے دودھ ضائع ہونے کی وجہ سے کئی دنوں سے کافی مالی نقصان کا سامنا کرنا پڑرہا تھا، جس سے اسےکی اونٹنی اور خاندان کو بھوک اور بدحالی سے دوچار ہونا پڑا۔

ان کا کہنا تھا کہ  اُنے کے گاہک   اب ان سے اونٹنی کا دودھ نہیں خرید رہے ہیں اور کہتے ہیں کہ ایسا بدبودار  دودھ خریدنا پیسے ضائع کرنے کے مترادف ہے، جس پر انہیں کافی پریشانی اُٹھانی پڑرہی ہے۔

پریشان زُلیخان ممتاز کہتی ہے کہ، "اگر اونٹنی کا دودھ اس طرح گرمی کی وجہ سے  خراب ہوتا رہا تو میں کیسے اس اونٹنی اور اپنے بچوں کو بھوک سے بچاپاون گی۔"

حالیہ مئی کے دنوں میں پاکستان کوشدید گرمی کی لہر کا سامنا تھا جو پچھلی کئی دہائیوں کے دوران پڑنے والی گرمیوں سے کئی گُنا زیادہ شدید رہی ۔ 19 مئی کو جنوبی صوبہ سندھ کے ضلع لاڑکانہ میں درجہ حرارت51 ڈگری  تک جا پہنچا جو 1998کے بعد مئی کے ماہ میں  شدید گرمی کے طور پر ریکارڈ کی گئی ہے۔ اُس سال  درجہ حرارت53 ڈگری تک جا پہنچا تھا۔

صوبہ پنجاب کے دارالحکومت  لاہور  بھی اس سال 24مئی کو ملک کا گرم ترین علاقہ رہا ، جہاں تقریباً 15 ملین آباد ی رہتی ہے۔ یہ گرم ترین دن 1954 کے بعد پہلا گرم ترین دن قرار دیا گیا ۔ 1954 میں  لاہور شہر میں درجہ حرارت47.4 ڈگری رہا تھا۔

ایسے گرم ترین دن، جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے پاکستان میں اب عام ہوتے جارہے ہیں، سے لوگوں اور مال مویشی جانورں کی صحت کے لئے بڑا خطرہ ہیں۔ شدید گرمی سے زندگی کے عام معمولات بڑی حد تک متاثر ہورہے ہیں، خاص کر جن کو  روزانہ اُجرت کے لیے گھر سے باہر نکلنا پڑتا ہے۔

31 سالہ  ممتاز اسلام آباد کے ایک مضافاتی علاقے میں رہائش پذیر ہے جو روزانہ  6 کلومیٹرچل کر شہر کے ایک پوش ترین علاقے میں اپنی اونٹنی کا دودھ بیچنے کے لیے آتی ہے۔ جہاں پر خاص کر ذیابطیس کے مریض اُسے  دوا کے طور پر دودھ خریدنے کے لیے آتے ہیں۔   یہ مریض  اس دودھ کو انسولین کے طور پر استعمال کرتے ہیں ۔

مگر شدید گرمی نے زلیخان ممتاز کے زریعہ معاش  کو گہری حد تک متاثر کیا ہے، کیونکہ اس کی اونٹنی کا نہ ہی دودھ بک رہا ہے بلکہ اسکے جانور کو بار بار  ڈیھائیڈریشن ہورہا ہے جسے سے وہ کافی کمزور پڑگیا ہے۔ اس کے علاوہ اس اونٹنی نے دودھ دینا بھی کم کردیا ہے۔  اب اس کے پاس سوات میں  اپنے آبائی گاوں واپس جانے کے علاوہ کو ئی چارہ نہیں رہا۔

ایسے کئی اور مال مویشی پالنے والے ہیں جو  ممتاز کی طر گرمی کی لہر سے پریشان ہیں۔

انسانوں اور مویشی جانوروں میں اموات کے ہونے کا خوف

مئی کے آخری ہفتے میں جمال خان نے اپنی 19 بھیسیں ذبح خانہ میں تقریباً 21 لاکھ روپے میں  جاکر بیچ دیں کیونکہ ان کو ڈر تھا کہ ان کی اموات نہ ہوجائے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں تھا اور اس کے بھیسوں نے پہلے ہی 60 فیصد دودھ دینا کم کردیا تھا۔

گرمی کی وجہ سے ممکنہ طور پر ہونے والی اموات کا خوف  لوگوں میں بھی موجود تھا۔ لوگوں نے گھر سے باہر نکلنہ ہی چھوڑدیا تھا ۔ مگر اس کے باوجود بھی اموات واقع ہوئی ہیں۔

البتہ گرمی کی شدت کی وجہ سے واقع ہونے والی اموات کے مطعلق کوئی اعداد و شمار موجو د نہیں ہیں ، مقامی اخباروں میں سیکڑوں کی تعداد میں اموات رپورٹ کی گئی ہیں۔

ملک کے کئی ہسپتالوں کو ایمرجنسی الرٹ پر رکھا گیا ہے، تاکہ گرمی سے متاثر ہونے والے مریضوں کو بروقت علاج فراہم کیا جائے۔

اسلام آباد میں واقع پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز ہاسپیٹل کے سربراہ الطاف حسین نے کہا کہ وہ مریضوں کو پانی کا استعمال کرنے کے لیے مشورہ دے رہے ہیں، تاکہ گرمی کی شدت کا اثرات کو کم از کم کیا جائے۔

پاکستان میٹیورولاجی ڈپارٹمنٹ  نے اس بات کی پیشن گوئی کی ہے کہ گرمی کی لہر جون کے پہلے دس دنوں تک جاری رہے گی۔ تاہم اس گرمی کی لہر کا جولائی کے پہلے ہفتے سے پہلے مکمل طور پر ختم ہونا ممکن ہوتا ہوا نظر نہیں آتا۔

ورلڈ میٹیورولاجییکل آرگنائیزیشن کے ایشیا ریجن کے لئے وائیس پریزیڈنٹ قمرزمان چوہدری کہتے ہیں کہ پاکستان میں عام ہوتے ہوئی شدید گرمی کے دنوں کی وجہ موسمیاتی تبدیلی ہے، جس میں آنے والے سالوں میں اور اضافہ ہوگا۔

فصلوں کے نقصانات

پاکستان میٹیورولاجی ڈپارٹمنٹ کے ماہر موسمیات غلام رسول کا کہنا ہے کہ پاکستان کے مختلف علاقوں میں لگائے گئے 56 میٹیورولاجیکل اسٹیشنز  کی ڈیٹا نے واضع نشاندہی کی ہے کہ  حالیہ سالوں میں ملک میں بڑی حد تک درجہ حرارت میں اضافہ ہوا ہے، خاص کر جنوبی ہموار اور ساحلی پٹی سے جڑے علاقوں میں۔

پاکستان کے مختلف علاقوں میں اُگائے گئے دھان اور کپاس کے فصلوں  کو بھی اس شدید گرمی کی لہر کی وجہ سے نقصان پہنچا ہے۔

پاکستان ایگری فورم کے چیئر مین ابراہیم مغل  کہتے ہیں کہ ان فصلوں کو اُ س وقت نقصان پہنچا ہے جب اُن کی کاشت عروج پر تھی۔ اب کسانوں کو ان  علاقوں میں جلد از جلد دوبار کاشت شروع کرنی پڑے گی جہاں پر دھان اور کپاس کو نقصان پہچاہے۔

سلیم شیخ اور صغرا تنیو اسلام آباد میں نمائندگان برائے موسمیاتی تبدیلی اور ترقیاتی سائنس ہیں۔

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->