×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

شمالی پاکستان میں بڑتے ہوئے درجہ حرارت کسانوں کے لئے باعث خوشی مگر موسمیاتی ماہرین کے لئے پریشانی بن رہے ہیں

by Saleem Shaikh and Sughra Tunio | @saleemzeal | Thomson Reuters Foundation
Tuesday, 8 October 2013 11:30 GMT

In the Hunza valley, higher temperatures and less snow are boosting crop yields, but experts are concerned about the wider impacts of melting glaciers

کریم آباد، پاکیستان (تھامسن رائٹرز فائونڈیشن) - شمالی پاکستان کے پہاڑوں میں رہنے والے مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے ان کے فصلوں سے بمپر پیداوار ہورہی ہے، تاہم زرعی اور موسمیاتی ماہرین نے اس بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشئرز پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں جن پر ملکی زراعت کا انحصار ہے۔

 

صوبہ گلگت بلتستان کی خوبصورت ہنزہ وادی میں واقع کریم آباد گاوں کے کسان سلطان خان نے کہا کہ کئی سال پہلے علاقے کا موسم تقریبا ٹھنڈااورآلود رہتا تھا۔ مگر اب موسم زیادہ تر گرم رہتا ہے۔ اس سے ہمارے مکئی، گندم، سبزیوں اور فروٹ کے فصلوں کی پیداوار میں اضافہ ہواہے کیونکہ وہ جلد پک جاتے ہیں۔

 

ہنزہ کے کسانون نے تھامسن رائٹرز فائونڈیشن کو بتایا کہ جون اور اکتوبر کے درمیان میں ہونے والی مکئی کی فصل کبھی تین فیٹ سے اوپر نیہں بڑھتی تھی۔ اب یہ  سات فیٹ تک بڑھتی ہے۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تقریبا ۲۰ سے ۲۵ فیصد تک مکئی کی پیداور میں سالانہ پیداوار میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ یہ ہی صورتحال کچھ دوسرے فصلوں کی ہے۔

 

 اس علاقےکے کسانوں کا شکوہ ہے کہ حکومت کی عدم رہنمائی کی وجہ سے وقت سے پہلے شروع ہونے والی موسم کا مطابق فصلوں کی کاشت کرے ان سے بھرپور فائدہ اُٹھانے میں مشکلات کا سامنا ہورہا ہے، کیونکہ ان کی اس بات پر کوئی یقین نہیں کہ یہ موسمیاتی تبدیلی عارضی ہے یا مستقل۔

 

اپرانڈس بءسن میں ہنزہ وادی ہنزہ ندی پر اسلام آباد سے تقریبا 675 کلومیٹر پرواقع ہے، جو سطھ سمندر سے تقریبا 2500 میٹر اوپر گلیشیائی پہاڑوں کے درمیاں موجود ہے۔

 

کم برف باری 

 

ہنزہ وادی کے ایک اور گاوں برشل کے 76 سالہ کسان علی مدد کہتے ہیں کہ بڑتے ہوئے درجہ حرارت کی وجہ سے گلیشئرز تیزی سے اور مسلسل پگھل رہے ہیں، جس سے اُس کے ذریعہ معاش کے حصول میں آسانی پیدا ہوگئی ہے۔ اب گلیشئرز سے اُبھرنے والے نالوں میں ، جو کھیتی باڑی کے لئے اہم ہیں ہوتے ہیں، مزید پانی آنے لگا ہے۔ ِیہاں تک کہ اب یہ قدرتی نالے سردیوں میں بھی بھنے لگے ہیں۔

 

علی مدد نے تھامسن ڑائٹرز فائونڈیشن کو بتایا کہ اس وادی میں  برفباری اکتوبر کے درمیان سے شروع ہوتی تھی اور چھہ ماہ تک جاری رہتی تھی۔ اب برفباری دسمبر کے آخری دنوں میں شروع ہوتی ہے اور دو تین ماہ جاری رہتی ہے۔ اس کے علاوہ دو درجہ حرارت سردیوں میں مائنس سولہ ڈگری سے نیچے جاتا تھا اب وہ بمشکل ہی مائنس دو ڈگری تک جا تا ہے۔ اس کے برعکس، گرمی کی موسم کا دورانیہ جو تین ماہ تھا اب پانچ ماہ سےزیادہ کا ہوتا ہے۔

 

چناجہ، کریم آباد کے سلطان خان کا کہنا ہے کہ سرد موسم میں برفباری جو کئی سال پہلے تیرہ انچ ہوتی تھی اب بمشکل ہی پانچ انچ ہوتی ہے۔

 

مقامی ماہرزراعت فداکریم کہتے ہیں اب پہاڑوں کی اوپری حصوں پر برفباری ہوتی ہے اور درمیانے اور نچلے حصے تک برفباری نہیں ہوتی۔ مثال کے طور پر، راکاپوشی، جوہنزہ نگر وادی میں کراکرم پہاڑی سلسلے کی ایک منفرد اور دیدہزیب چوٹی ہے، جو 2008 کے بعد کبھی بھی مکمل برف سے نہیں ڈھک سکی ہے۔

 

اُن کے مطابق، سردی میں ہونے والی برف مارچ کے کچھ ہی ہفتوں میں پگل جاتی ہے۔ جبکہ یہ برف اپریل کے آخر تک ان پہاڑوں پر رہتی تھی۔

 

گلیشئرز تیزی سے پگھل رہے ہیں

 

موسمیاتی اور زرعی ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ بڑھتی ہوئی گرمی کی وجہ سے تیزی سے پگھلنے والے گلیشئرز کے اثرات خطرناک ہوسکتے ہیں۔

 

بالتت رورل سپورٹ آرگنائیزیشن کے مائنٹین فارمنگ کنزرویشنسٹ، عنایت کریم، کہتے ہیں کہ ہنزہ وادی میں واقع اُلتر گلیشئر سات سال بڑتا تھا اور سات سال گھٹتا تھا۔ مگر اب وہ 1999 سے مسلسل گھٹتا جارہا ہے۔

 

وادی میں آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کی شہانا کہتی ہیں کہ اب ہنزہ ویلی میں سرد موسم کے دورن برف باری کے علاوہ بارشیں بھی ہوتی ہیں، جو غیر اہم تھی۔

 

سردی کے موسم میں برفباری کے بجائے بارشیں ہونے سے ہنزہ ندی کے بہاو پر منفی اثرات پڑسکتے ہیں، جو انڈس رور کی اہم ٹربیوٹری ہے۔

 

پاکستان میٹرولاجیکل ڈپارٹمنٹ کے ڈائریکٹر جنرل عارف محمود تیزی سے پگھلنے ہوئے گلیشئرز پر کافی پریشانی کا آظہار کیا ہے۔

 

اُن کا کہنا ہے کہ انڈس بیسن کے اوپروالے علاقوں میں بڑتی ہوئی گرمی کی وجہ سے گلیشئرز گھٹ رہے ہیں اور وہا اب پہاڑوں کے اوپر والے حصوں پر برفباری ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ، ہیٹ ویو کے واقعات میں اضافہ ہورہا ہے۔ اب ان علاقوں میں درجہ حرارت ۴۰ ڈگری تک جاتا ہے جو گذشتہ دس سالوں میں کبھی بھی ۲۸ ڈگری سے اوپر نہیں گیا ہے۔

 

انہوں نے خبردار کیا ہے کہ اگر اس گلیشئرز کے علاقوں میں درجہ حرارت اس طرح بڑتا رہا تو علاقے کو فلیش فلڈ اور لینڈسلائیڈنگ سے سامنا کرنا پڑسکتا ہے۔

 

سینئر ویڈھر ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسی صورتحال سے نمٹنے کے لئے پبلک انفرااسٹرکچر کو کلائمٹ رزیلئنٹ کرنا ہوگا، خاص کر سڑکوں، پلوں، ندی نالوں کے کناروں کو۔ دوسری صورتم میں مقامی آبادی کو شدید خطرات لاحق ہونگے۔

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->