×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

حکومتی سست روی سے قحط زدہ تھرپارکر میں اموت میں اضافہ

by Saleem Shaikh and Sughra Tunio | @saleemzeal | Thomson Reuters Foundation
Friday, 14 March 2014 12:30 GMT

Children and livestock are dying in drought-prone Tharparker district, where local people say lack of preparation for drought and slow government response have contributed to a creeping disaster

تھرپارکر، پاکستان [تھامسن ڑائٹرزفائونڈیشن] - جنوبی صوبہ سندھ کے صحرائی علاقے تھرپارکر میں گذشتہ دس سالوں میں شدید ترین ہونے والی حالیہ خشک سالی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے قحط جیسی صورتحال سے کم از کم 100 افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔

 

اس صحرائی علاقے میں تین سال سے مسلسل جاری رہنے والی خوشکسالی، جو 2011 میں شروع ہوئی تھی۔ ہزارو خاندان بھوک اور بدحالی سے بچنے کے لیے سندھ صوبے کے مشرقی، شمالی اور مغربی اضلاع جیسے بدین، ٹھٹہہ اور حیدرآباد کے مختلف علاقوں کی طرف عارضی طور پر نقل مقانی کررہے ہیں۔ ان علاقوں میں یہ بے گھر لوگ سڑکوں پر رھنے پر مجبور ہو جاتے ہیں اوراپنے بچوں کو بھوک اور پیاس سے بچانے کے لیے زرعی زمینوں میں کام کرتے ہیں جہاں پر ان کے مال مویش کے لیے چارہ بھی مل جاتا ہے۔

 

سندھ رلیف ڈپارٹمنٹ کے سینئیر افسران کا کہنا ہے کہتے ہیں کہ مرنے والے کی تعداد 100 کے لگ بگ ہے۔ مگر علاقے میں مختلف غیر سرکاری سماجی تنظیموں کے ممبران کا کہنا ہے کہ بھوک اور غذائی قلت کی وجہ سے ہلاک ہونے والوں کی تعداد 300 سے بھی زیادہ ہے، جن میں زیادہ تر بچے ہیں، جس کی اہم وجہ سرکارکے طرف سے اس قدتی آفت سے نمٹنے میں سست روی ہے۔

 

تاہم تھرپارکر ضلع کے سرکاری افسران کا کہنا ہے کہ انہوں نے اس خوشک سالی، جو آگست 2013 میں معمول سے کم بارشوں کی وجہ سے شروع ہوئی تھی، کے متعلق صوبائی حکومت کو گذشتہ سال آگست کے ماہ میں ہی مطلع کردیا تھا۔

 

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے مطابق، گذشتہ سال ساون کی بارشیں، جو جون سے آگست تک ہوتی ہیں، معمول سے تقرباً 30 فیصد کم ہوئی تھی اور کچھ ایسے علاقے تھے جہاں پر باریشیں یا تو سرے سے ہوئی ئی نہیں تھی یا بہت حد تک کم پڑیں۔

 

اس ضلع میں تقریباً 20 سال سے کم کرنے والی غیر سرکاری تنظیم 'بانھن بیلی' کے کوآرڈینیٹر حنیف کوسوکہتے ہیں کہ تھرپارکر کی چھہ میں سے تین تحصیلوں میں بارشیں نہ ہونے کے برابر پڑیں، جن کے نام اسلام کوٹ، ڈیپلو، مٹھی ہیں۔

 

اس خوشک سالی اور مختلف بیماریوں کی وجہ سے ہزاروں کی تعداد مین جانور بھی مرگئے ہیں، جو 22000 اسکوئر کلومیٹر پر پھلے صحرائی ضلع کے 15لاکھ لوگوں کے یے ذرائع معاش ہیں۔ 

 

تاہم ماتا یا [شیپ پاکس] بیماری بھیڑوں میں کم خوراک اور پانی کی وجہ سے تیزی سے پہلنے لگی، جس کے نتیجے میں لاکھوں مویشی جانور مرگئے ہیں۔

 

ایک سرکاری اندازے کے مطابق، تھرپارکر میں 60 لاکھ سے زیادہ مویشی جانور پائے جاتے ہیں۔

 

دریں اثنا، سندھ صوبے کی ڈزاسٹر مئنجمنٹ اتھارٹی کے مطابق، تقریباً ایک لاکھ پچہتر ہزار خاندان قحط سے بچنے کے لیے سندھ کے دوردراز علاقوں کی طرف نقل مقانی کرگئے ہیں۔

 

 سندھ حکومت کے وزیر برائے اطلاعات کا کہنا ہے کہ نو لاکھ سے زیادہ لوگ غذائی قلت سے متاثر ہوئے ہیں۔

 

اس غمبھیر صورتحال سے بچنے کے لیےپاکستان کے وزیر اعظم نوازشریف اور سندھ صوبے کے وزیر اعلی سید قائم علی شاہ نے الگ الگ 10 ملین ڈالرز اور 1ملین ڈالرز ایمرجنسی رلیف امداد کی مد میں دیے ہیں تاکہ موجودہ صورتحال سے نمٹا جاسکے۔  اس کے علاوہ گندم کی 60ہزار بوریاں بھی متاثرین میں تقسیم کی جارہی ہیں۔

 

اس کے علاوہ، مختلف بیماریوں سے متاثرین کو بچانے کے لیے دوایوں اور پینے کے صاف پانی اور مویشی جانوروں کے لیے مفت چارہ کا بھی انتظام کیا گیا ہے۔

 

تاہم محکمہ موسمیات کے موسمیاتی سائنسدان غلام رسول کا کہنا ہے کہ اس صحرائی علاقے میں آنے والے سالوں میں بارشیں کم ہواکریں گی جس کی وجہ سے یہ علاقہ خوشک سالی سے متاثر ہوتا رہے گا، جس کے اثرات کو کم کرنے کے لیے منصوبہ بندی کرنی پڑے گی۔ 

 

ان کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں بارش کے پانی کو اکٹھاکرنے کے لیے نئے حوض بنانے پڑیں گے۔

 

-سلیم شیخ اور صغرا تنیو الرٹ نیت کے لیے اسلام آباد میں نمائندگان برائے موسمیاتی تبدیلی ہیں

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->