×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

کم برفباری اور گلیشیئرز کے تیز پگلنے سے پاکستان آبی خطرات سے دوچار ہورہا ہے

by Saleem Shaikh and Sughra Tunio | @saleemzeal | Thomson Reuters Foundation
Friday, 23 May 2014 14:00 GMT

Earlier glacial melt may hit the Indus River just as monsoon rains do, raising the risk of flooding followed by drought

 

گلگت، پاکستان [تھامسن رائٹرزفائونڈیشن] - شمالی علاقاجات کے پہاڑی کسان حالیہ سرد موسم کے دوران کم برفباری پڑنے کے نتیجے میں اس بات پر بے حد خوفزدہ ہیں کہ اس سے پہاڑی ندی نالوں کے بھاو میں واضع تبدیلی ہوگی۔ 

 

ان کا کہنا ہے کہ کم برفباری پڑنے سے اس سال گرم مہینوں کے دوران ندی نالوں میں پانی کے بہاومیں کمی واقع ہونے کے امکانات ہیں، جس سے پہاڑی زراعت متاثر ہوگی۔

 

محکمہ پاکستان میٹرولاجی کے ماہرین موسمیات کہتے ہیں کہ پاکستان کے اپر انڈس بئسن والے علاقوں میں حالیہ برف باری گذشتہ سالوں کی برفباری کے برعکس 70 فیصد کم پڑی ہے۔

 

گلگت-بلتستان صوبے کے ضلع اسکردومیں واقع سرکاری آبزرویٹوری اسٹیشن کے انچارج محمد امین نے کہا کہ حالیہ برفباری کافی کم پڑنے کے علاوہ دیر سے شروع ہوئی تھی، اور یہ برف باری ایک مہینہ پہلے یعنے اپریل کے بجائے مارچ میں پگنلا شروع ہوئی۔

 

صوبے کے گُپس ویلی میں ویڈھر آبزرویٹوری اسٹیشن کے انچارج موسئ خان کا کہنا ہے کہ برفباری کا وقت سے پہلے پگلنے سے پہاڑی ندی نالے وقت سے پہلے بہنا شروع ہوئے ہیں۔ یہ موسمیاتی تبدیلی مقامی پہاڑی کسانوں کے لیے باعث تشویش ہے، موسم گرما کے فصلوں کی کاشت کے لیے اپنی زمینوں کو مئی کے مہینے میں شروع کرتے ہیں۔

 

انہوں نے مزید کہا کہ گلگت بلتستان صوبے کے بیشتر وادیوں میں کسان موسم سرما کے فصلوں کی کاشت مئی اور جون میں کرتے ہیں، جب بڑھتے ہوئے درجہء حرارت کی وجہ سے ندی نالوں میں پانی بہنہ شروع ہوجاتا ہے۔ یہ ندی نالے پہاڑی علاقوں میں کاشتکاری کے لیے واحد پانی کا زریعہ ہیں۔

 

مگر ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ برف کا کم پڑنا اوراُس کا وقت سے پہلے جلد پگلنا مقامی کسانوں کے لیے اُس وقت باعث پریشانی ہوگا جب یہ ندی نالے وقت سے پہلے بہنے کے بعد خوشک ہوجائیں گے اور ان کسانوں کےلیے ان نالوں میں پانی نہیں ہوگا۔

 

گُپس وادی کے تھنگئی گاوں کے50 سالہ کسان نیئت والی نے کہا کہ موسموں میں بے ہنگم تبیدیلی پر وہ بے حد پریشان ہیں۔  ان کا کہنا ہے کہ انہوں نے ایسی تبدیلی زندگی میں پہلی باری دیکھی ہے۔

 

تاہم محمد امین نے کہا کہ 1994 کے بعد برف باری کے دورانیے میں لگاتار کمی ہورہی ہے۔ پہلے برف باری نومبر سے مارچ تک پڑتی تھی جو اب جنوری اور فروری تک ہوگئی ہیں۔

 

موسئ خان کہتے ہیں کے کسانوں کو تیزی سے بدلتے ہوئے موسم سے اپنی کھیتی باڑی کو مطابقت میں لانا ہوگا اور اب مئی اور جون کے بجائے مارچ میں اپنی زمینوں میں کھیتی باڑی شروع کرنا ہوگی۔

 

ماہرین کے مطابق، تاہم کم دورانیے والے موسم سرما صرف فصلوں کے لیے مسئلہ نہیں ہیں، اس سے انسانی جانوں کو بھی خطرات لاحق ہوسکتے ہیں۔

 

انٹرنیشنل سینٹر فار انٹیگریٹڈ مائونٹین ڈوولپمنٹ سے وابسطہ پانی و ماحولیات کے سائنسدان سالار علی نے کہا ہے کہ گلیشیِرز کے تیز اور وقت سے پہلے پگلنے سے دریاوں کے بھاو میں اچانک تیزی اور سطح میں اظافہ ہوجاتا ہے۔ اور ان دریاوں میں مون سون کی بارشوں کے نتیجے میں سیلابی صورتحال پیدا ہوسکتی ہے۔

 

ماہرین موسمیات اس بات پر متفق ہیں کہ گلگت بلتستان کی مختلف وادیوں میں پانی کے نئے ذخائر بناکر پانی کو ذخیرہ کرنے کے ساتھ ساتھ سیلابوں کو بھی روکا جاسکتا ہے۔

 

وفاقی وزارت پانی و بجلی کے ریساستی وزیر عابد شیر علی کا کہنا ہے کلائمیٹ اڈاپٹیشن کے تحت ایسا کرنا ممکن اور وقت کی اہم ضرورت ہے۔

 

سلیم شیخ اور صغرا اسلام آباد میں نمائندہ برائے موسمیاتی تبدیلی اور ترقیاتی سائنس ہیں۔

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->