×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

پانی کی قلت سے دوچار پاکستان کے لیے دھان کی ایراضی میں اضافہ خوش آئن نہیں

by Saleem Shaikh and Sughra Tunio | @saleemzeal | Thomson Reuters Foundation
Thursday, 10 July 2014 07:30 GMT

A labourer harvests cotton in a flooded field on the outskirts of Ghotki district during Pakistan's 2010 devastating floods. THOMSON REUTERS FOUNDATION/Saleem Shaikh.

Image Caption and Rights Information

Extreme weather means cotton farmers are turning to rice – but that won’t last as water runs short, experts predict

 

گھوٹکی، پاکستان [تھامسن رائٹرزفائونڈیشن] - صوبہ سندھ کے ضلع گھوٹکی میں علی عثمان ڈیزل پر چلنے والی واٹر پمپنگ مشین چلارہے تھے، تاکہ وہ اپنی ۲۲ ایکڑ پر دھان کی فصل کو پانی دے سکے۔

 

۲۰۰۷ تک، وہ کپاش کاشت کرتے رہے ہیں۔ مگر اب وہ ضلع میں دوسرے کئی کسانوں کی طرح وہ اب دھان کی کاشت کرتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ دھان بنسبت کپاس سیلابوں اور بے اعتبار وبے ترتیب بارشوں کے منفی نقصانات کو جہیلنے کی زیادہ صلاحیت رکھتی ہے۔ 

 

گھوٹکی سندھ میں کپاس کی کاشت کے حوالے سے دوسرا بڑہ صوبہ ہے۔

 

عثمان کا کہنا ہے کہ وہ ۴۵ سال تک کپاس کاشت کرتے رہے ہیں اور اس سے اچھی آمدنی بھی حاصل ہوتی رہی ہے۔ کپاس نے خوشک سالی، کم بارشوں کی وجہ سے کم پانی مہیا ہونے والےمنفی اثرات کے باعث بھی اچھی پیداوار دیتے رہے ہیں۔ مگر جب شدید بارشوں اور سیلابوں سے کپاس کی فصل کو کافی نقصان ہورہا ہے۔ مگر اب گذشتہ ۱۰ سالوں سے شدید بارشوں سے علاقے کی کپاس کے فصل کو کافی نقصان پہنچ رہا ہے۔  تاہم کپاس سے دھان کو منتقلی کسانوں کے لیے باعث سود ثابت ہورہی ہے۔

 

مگر ماہرین زراعت اور فوڈسکیورٹی اتنے بڑے پیمانے پر کپاس سے دھان کی منتقلی پر پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ ایسی تبدیلی پائیدار نیہں ہے کیوں کہ پاکستان پہلے ہی پانی کے بڑھتے ہوئے بحران سے دوچار ہے۔

 

ماہرین کا کہنا ہے کہ دھان کی بڑھتی ہوئی ایراضی کی وجہ سے پانی پر دباءُ بڑھے گا۔ کیوںکہ دریائے سندھ کے بھاوء میں ہرسال کمی واقع ہورہی ہے۔

 

غیر یقینی صورتحال

 

پاکستان واٹر پارٹنرشپ کے پرویز امیر کے مطابق، "پاکستان میں پانی کی فراھمی کی غیریقینی صورتحال کے پیشِ نظر، مستقبل میں کسانوں کے لیے چاول کی کاشت کو جاری رکھنا دشوار ہوجائے گا"-

 

مگرایسی وارننگ پر کسان غور کرنے پر رضا مند نہیں ہیں۔ اور وہ کپاس کی جگہ دھان کو ترجیح دے رہے ہیں۔

 

سندھ حکومت کے محکمہ زراعت کے وزیر نے تھامسن رائٹرز فائونڈیشن کو بتایا کہ سندھ کے ضلع سانگھڑ، جو کپاس کی وجہ سے مشہور تھا اور زیاہ تر کپاس اُگائی جاتی تھی، اب ۲۰۰۸ سے تقریباً آدھے سے زیادہ رقبہ پر وہاں دھان کاشت کی جاتی ہے۔

 

اسی محکمے کے سیکریٹری ثاقب احمد سومرو نے کہا کہ ان کا محکمہ کپاس سے دھان کی منتقلی پر بے حد پریشان ہے۔ 

 

ان کا کہنا ہے کہ سانگھڑ میں کپاس کی ایراضی میں چالیس فیصد کمی واقع ہوئی ہے۔ اس کے علاوہ، سندھ صوبے میں مجوعی طور پر کپاس کی ایراضی میں ۲۵۰۰۰ ہیکٹرزکی کمی آئی ہے۔

 

سندھ میں، کپاس کی کاشت چھہ لاکھہ اورساڑھے چھہ لاکھہ ہیکٹرز کے درمیان کی جاتی ہے۔ دھان کی کاشت سات سے ساڑھے سات لاکھہ ہیکٹرز پر کی جاتی ہے۔

 

سدھ محکمہ زراعت کے مطابق، چار سال پہلے صوبے میں کپاس اور چاول کی صورتحال اُس کے برعکس تھی۔

 

زرعی ماہرین کے مطابق، دھان کی بڑھتی ہوئی ایراضی سے آبپاشی نظام پر دباءُ بڑرہا ہے، کیونکہ دھان کو کپاس کے بنسبت دوگنا زیادہ پانی کی ضرورت ہوتی ہے۔ 

 

ان ماہرین کا کہنا ہے کہ تاہم دریائے سندھ کے بھاوءُ میں مسلسل کمی کے پیشِ نظر کپاس سے دھان کی طرف منتقلی پائیدار ثابت نہیں ہوگی۔

 

پرویز امیر کے مطابق، ۱۹۴۵ عیسوی میں، دریائے سندھ ، جو پاکستان کی زراعت کے لیے انتہاِئی اہم ہے، میں سالانہ ۱۹۴ ملین ایکڑفیٹ پانی ہوتا تھا، جو اب کم ہوکر ۹۴ ملین ایکڑ فیٹ ہوتا ہے۔ 

 

انہوں خبردار کیا کہ آنے والے وقت میں دھان کے کسان پانی کی کمی کی وجہ سے مستقبل میں بے حد پریشان ہونگے۔

 

پاکستان میں بے بارشی کم اور بے ترتیب ہورہی ہیں، جس کے زیرِزمیں ذخائر پر پہلے ہی منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں اور وہ تیزی سے گھٹ رہے ہیں۔ تاہم اس سے اُن فصلوں پر جن کو پانی زیادہ درکار ہوتا ہے جیسے دھان کی کاشت پر منفی اثرات مرتب ہونگے۔  

 

انہوں نے کہا کہ ایسے فصلوں کی کاشت کو بڑھانا ہوگا جن کو کم پانی درکار ہوتا ہے۔

 

سلیم شیخ اور صغراہ تنیو اسلام آباد میں نمائندگان برائے موسمیاتی تبدیلی ہیں۔

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->