×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

زمینی کٹاو روکنے کے منصوبے کے بعد پاکستان کے پہاڑی کسان ہجرت کے فیصلوں سے دستبردار ہورہے ہیں

by Saleem Shaikh and Sughra Tunio | @saleemzeal | Thomson Reuters Foundation
Friday, 15 August 2014 09:00 GMT

An initiative to stabilise mountain slopes gives Himalayan farmers and business owners a more secure future


ایوبیہ، پاکستان [تھامسن رائٹرزفائونڈیشن]  پاکستان کے مغربی ہمالیائی گاوں نملی میرا کے درجنوں دوسرے کسانوں کے ساتھہ محمد نعیم کھیتی باڑی کو خیرباد کہہ کر قریبی شہر کی طرف منتقل ہونے کی منصوبہ بندی کررہا تھا۔ 

دو سال پہلے تین ہیکٹرز پر آلو کی تیار فصل کو زمینی کٹاو کی وجہ سے نقصان پہچنے کے بعد نعیم نے کھیتی باڑی کو چھوڑکر کسی قریبی شہر میں کافی شاپ کھولنے یا کسی آٹو ورکشاپ میں کام کرنے کا فیصلیہ کیا تھا۔ ان کا کہنا ہے کہ زمینی کٹاو اور لینڈسلائیڈنگ کے بڑھتے ہوئے مسئلے علاقے میں پہاڑی کسانوں کے لیے سر درد بن گئے ہیں، جس کی اہم وجہ عام ہوتی ہوئی شدید بارشیں ہیں۔

نملی میرا گاوں ایوبیہ نیشنل پارک کے شمالی سرحد اور پاکستان کے دارلاحکومت اسلام آباد سے تقریباً ۸۰ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے۔ یہ گاوں پُرکشش قدرتی چشموں، سرسبز پہاڑوں کی وجہ سے مشہور تھا، جہاں سے مغربی ہمالیہ کا پہاڑی سلسلہ گزرتا ہے۔ مگر حالیہ سالوں میں، یہ گاوں اب غیر مستحکم پہاڑوں، زمینی کٹاوں کی وجہ سے مشہور ہوگیا ہے، جس کی وجہ سے پہاڑی کسانوں کے ذریعہ معاش کو خطرہ لاحق ہوگیا ہے۔

پر نئی شجرکاری اور پہاڑوں کے مستحکم ہونے کے بعد کسانوں نے ایسے منصوبے ترک کرنا شروع کردیے ہیں۔

پینتیس سالہ کسان محمد نعیم کہتے ہیں کہ انہوں نے اپنے گاوں سے منتقلی کے فیصلے سے دستبردار ہونے کا فیصلہ اس وقت کیا جب انہوں نے دیکھا کہ ان کے کھیت کی زمین کا کٹاو نئے درخت لگنے کے بعد رُک گیا ہے ۔

یہ نئی شجرکاری اور زمینی کٹاو کا روک تھام اُس منصوبے کا حصہ ہیں، جو ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ فار نیچر - پاکستان کی طرف سے کوکا کولا فائونڈیشن کے معالی تعاون کی مدد سے ایوبیہ نیشنل پارک کے آس پاس میں واقع ۱۲ گاوں میں  ۲۰۰۸ میں شروع کیا گیا ہے۔            

اب یہ منصوبہ چھٹے مرحلے میں داخل ہو چکا ہے اور جون ۲۰۱۵ میں مکمل ہو جائے گا۔ اس منصوبے کا خاص مقصد ایوبیہ نیشنل پارک کے آس پاس میں واقع ۱۲ گاوں کے پہاڑی علاقوں میں مختلف انجنیئرنگ تکنیکوں کی مدد سے زمینی کٹاو، لینڈسلائیڈنگ کے واقعات اور خطرات کو کم سے کم کرنا ہے۔ 

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ فار نیچر - پاکستان کے ماحولیاتی ماہر محمد وسیم کا کہنا ہے کہ جنگلات کی بلاروک ٹوک کٹائی، غیرپائیدار چرواہی کی وجہ سے زمینی کٹاو اور لینڈسلائیڈنگ جیسے مسئلے پیدا ہوگئے ہیں۔ اگر ان مسائل کو حل کیا جائے تو زمینی کٹاو اور لینڈسلائیڈنگ کافی حد تک رُک جائیں گے۔ 

انہوں نے مزید کہا کہ شجرکاری ہونے سے زمین کا کھسکنا رُک جاتا ہے، زیرزمین پانی کو ٹہرنے نہیں دیتی اور لینڈسلائیڈنگ کے واقعات بھی رُک جاتے ہیں۔

ورلڈ وائلڈ لائف فنڈ فار نیچر - پاکستان کا ایوبیہ نیشنل پارک کے آس پاس میں واقع کئی گاوں میں زمینی کٹاوں اورلینڈسلائیڈنگ کو روکنے والا منصوبہ مقامی کسانوں کے زریعہ معاش کھیتی باڑی کو تحفظ دینے میں کارآمد ثابت ہوا ہے اور اُس سے مقامی لوگ خوش ہیں۔

سیلابی ریلے کے خطرات 

کُھن کلان گاوں کے ساٹھ سالہ سبزی کاشتکار تاج محمد بے حد خوش ہے۔ ایک بڑے پتھر پر بیٹھے ہوئے تاج محمد کا کہنا ہے کہ فلڈ چیک ڈیمز ان کے گاوں میں تعمیر کیے گئے ہیں، جہاں پر ۳۰۰ خاندان رہتے ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ کئی چھوٹے ڈیم اورسیلابی پانی، جو زمینی کٹاو کا باعث بنتے ہیں، کو موڑنے والےکئی اسپرز بھی تعمیر کیے ہیں۔ 

تاج محمد نے کہا کہ ساون کی تیز اور شدید بارشوں کی وجہ سے کئی گاوں کے زیرآب آنے سے خطرات لاحق ہوتے تھے اور ہماری زرخیز زمیں کو بھا لے جاتے تھے اور زمینی کٹاو کا باعث بنتی تھیں۔ مگر اب ایسے      واقعات ۲۰۱۱ کے بعد رُک یا کم ہوگئے ہیں۔

محمد وسیم کے مطابق، اس منصوبے کے تحت، ۲۰۰۸ سے لے کر ۲۰۱۴ تک ۷۶۳ کیوبک میٹرز چیک دیمز، ۳۴۴۰ کیوبک میٹرز فلڈ کنٹرول دیواریں تعمیر کی گئی ہیں تاکہ سیلاب سے ہونے والے نقصانات کو کم سے کم کیا جاسکے۔ اس کے علاوہ، ۱۵۰۰ اسکوائر میٹرز پہاڑی علاقے پر سرسبزہ اُگایا گیا ہے۔ تقریباً ۷۵ ہیکٹرز کے علاقے میں پائیداور چرواہی کے طریقے متعارف کیے گئے ہیں۔

وسیم کا کہنا ہے کہ جنگلات کی کٹائی زمینی کٹاو کی اہم وجہ تھی اور اُسی کی وجہ سے لینڈسلائیڈنگ کے واقعات معمول بن چُکے تھے۔ تاہم اس منصوبے کے تحت، گذشتہ پانچ سالوں میں ساٹھ ہزار سے زائد مقامی پائن کے اور دس ہزار پھل دار درخت لگائے گئے ہیں۔ 

سیاحوں کی واپسی

مقامی ذوالفقار علی نے بھی ورلڈ وائلڈلائف فنڈ فار نیچر - پاکستان کے اس منصوبے کے فائدے دیکھے ہیں۔  وہ  نملی میرا گاوں میں ایک پہاڑی ڈھلان کے نیچے موٹل چلاتے ہیں۔ یہ گاوں مغربی ہمالیہ پہاڑی سلسلوں کے خوبصورت اور دلکش منظروں کی وجہ سے مشہور ہیں۔ 

۲۰۰۸ تک ہزاروں سیاح ان کے گاوں میں مغربی ہمالیہ پہاڑی سلسلوں کے خوبصورت اور دلکش منظروں کا نظارہ کرنے آتے تھے اور وہ ذوالفقار علی کے موٹل پر کھانا کھانے آتے تھے۔ مگر زمینی کٹاوں اور لینڈسلائیڈنگ کے واقعات کی وجہ سے ان کا موٹل ویران ہونے لگا، کیونک سیاحوں نے اس گاوں میں لینڈسلائیڈنگ کی وجہ سے آنا چھوڑدیا تھا۔

مگرورلڈ وائلڈ لائف فنڈ فار نیچر - پاکستان کے منصوبے کے باعث زمینی کٹاو اور لینڈسلائیڈنگ کے واقعات میں کمی آنے یا رُک جانے کی وجہ سے سیاحوں دوبار نملی میرا اور ملحقہ گاوں کی طرف آنا شروع کیا اور ذوالفقار علی کا موٹل دوبارہ آباد ہونے لگا۔

 

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->