×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

ڈزاسٹر پلان نہ ہونے سے پاکستان کو بڑھتے ہوئے موسمیاتی خطرات کا سامنا

by Saleem Shaikh and Sughra Tunio | @saleemzeal | Thomson Reuters Foundation
Tuesday, 30 September 2014 09:03 GMT

The country is struggling to cope with its fourth major floods in five years

 

 

ماہرین موسمیاتی تبدیلی کہتے ہیں کہ پاکستان، جو اس سال حال ہی میں مون سون سیلابون سے دوچار ہوا ہے، کو قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے تیار کیئے گئے قومی منصوبے کو اب باقی نافض الاعمل کرنا ہے۔

 

یہ دس سالہ منصوبہ، نیشنل ڈزاسٹر مئنجمنٹ کمیشن یا این ڈی ایم سی کی ۲۰۱۲ میں ہونے والی ایک اہم اجلاس میں تیار کیا گیا تھا۔ مگر اس منصوبہ کی منظوری نہیں ہوسکی ہے کیونکہ این ڈی ایم سی کا ۲۰۱۲ کے بعد کوئی اجلاس نہیں بلایا گیا ہے۔

 

این ڈی ایم سی کو وزیر اعظم چیئر کرتے ہیں اور اس کمیشن میں اہم حکومتی ادارون کے سربراہان میمبر ہیں۔ اس کمیشن کے قیام کا خاص مقصد نیشنل ڈزاسٹرمئنجمنٹ پلان تیار کرنا تھا۔ اس منصوبے میں پاکستان کی قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے صلاحیت کو بہتر بنانا ہے۔ 

 

نیشنل ڈزاسٹرمئنجمنٹ اتھارٹی کے ترجمان احمد کمال کہتے ہیں کہ یہ منصوبہ اب تک منظوری کے انتظار میں ہے کیونکہ ۲۰۱۲ کے بعد اب تک این ڈی ایم سی کا کو اجلاس نہیں بلایا گیا ہے جس کی خاص وجہ وزیراعظم کا موجودہ سیاسی معاملات، بگڑتا ہوا توانائی کا بحران اور موجودہ سیکورٹی حالات جیسے مسائل سے فرصت نہ ملنا ہے۔  

 

ان کے مطابق، اس کا ہرگز یہ مطلب نہیں ہے کہ ذزاسٹر منجمنٹ پلان کی منظوری وزیراعظم کے اہم فہرست میں نہیں ہے۔ 

 

تاہم، احمد کمال نے اس سلسلے میں کوئی بھی ٹائم فریم کے مطلق بات کرنے سے گریز کیا۔

 

۲۰۱۰ میں منظور ہونے والے نیشنل ڈزاسٹر مئنجمنٹ ایکٹ کے مطابق، اس کمیشن کا اجلاس وزیراعظم کبھی بھی اور کہیں بھی بلاسکتے ہیں۔ کمیشن کے پاس ڈزاسٹر مئنجمنٹ کے سلسلے میں پالیسیز، پلانز اور گائیڈنس بنانے کے اختیارات ہیں۔ 

 

وفاقی کلائمٹ چینج ڈویژن کے سابق سیکریٹری محمود عالم کہتے ہیں کہ منصوبے پر عدم پیشرفت سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت ڈزاسٹر مئنجمٹ یا پاکستان کی کلائمٹ رزیلیئنس کی ضرورت کو اہمیت نہیں دے پارہی ہے۔

 

انہوں نے خبردار کیا کہ اگر ڈزاسٹر مئنجمنٹ منصوبوں کو نظرانداز کیا گیا تو،  تمام منصوبے جو معاشی اور سماجی ترقی کے لیے بنائے گئے ہیں ناکام ہوسکتے ہیں اور غربت، بھوک، غذائی قلت جیسے مسائل مزید پیچیدہ ہوسکتے ہیں

 

بیوروکریٹک رکاوٹیں

 

اسلام آباد میں وقع سسٹینایبل ڈوولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ کے کلائمٹ چینج پالیسی ایکسپرٹ، شکیل احمد رامے کہتے ہیں کہ اب یہ ہی وقت ہے کہ این ڈیم ایم سی اور نیشنل ڈزاسٹر مئنجمنٹ اتھارٹی غفلت کی نیند سے اٹھیں۔

 

ماہرین کہتے ہیں کہ این ڈی ایم اے اور فیڈرل فلڈ کمیشن دو اہم حکومتی ادارے ہیں، جن کو سیلابوں سے نمٹنے کے لیے بنایا گیا ہے۔ 

 

این ڈی ایم کے سابق چئرمیں کے مطابق، اتھارٹی کے اہم عہدوں پر فائز مئنجرز بیوروکریٹس ہوتے ہیں جن کی ٹینیکل نالیج بہت کم ہوتی ہے اور اُن میں منصوبے یا پالیسیز بنانے کی قابلیت نہیں ہوتی ہے۔

 

تاہم این ڈی ایم اے نے کئی پالیسی دستاویزات اور ایکشن پلانس تیار کیے ہیں، جیسے مون سون کنٹیجنسی پلان جس کا خاص مقصد عام ہوتے ہوئے شدید بارشوں کے نتیجے میں بننے والے سیلابوں کے اثرات سے نمٹنا ہے۔

 

اس سال ستمبر کے آخری ہفتے میں، پاکستان کو گذشتہ پانچ سالوں کے دوران چوتھے بڑے سیلاب کا سمنا کرنا پڑا۔ اس کے نتیجے مین تقریباً ڈھائی ملین لوگ متاثر ہوئے ہیں۔ 

 

این ڈی ایم کے ۲۹ ستمبر کو جاری ہونے والے اعدادو شمار کے مطابق، حالیا سلابوں سے تقریباً ۳۶۰ لوگ ہلاک، ۶۴۶ سے زیادہ زخمی ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ، تقریباً ۴۰۶۶ دیہات اورچوبیس لاکھ ایکڑ زرعی زمیں متاثر ہوئی ہے۔

 

فلڈ وارننگ کے بغیر کوئی ایکشن نہیں

 

پاکستان میٹرولاجیکل ڈپارٹمنٹ کے سابق ڈائریکٹر جنرل، عارف محمود، کہتے ہیں کہ ان کے محکمے نے آگست کے آخر میں ہونے والی بے ترتیب اور شدید بارشوں کے سلسلے میں پیشن گوئی کی تھی اور قومی، صوبائی محکموں اور ضلعی اتھارٹیز کو بروقت اطلاع بھی دی گئی تھی بگر این ڈی ایم اے کی طرف سے کوئی اقدامات نہیں اٹھائے گئے۔

 

پاکستان میٹرولاجیکل ڈپارٹمنٹ کے چیف میٹرولاجسٹ، محمد ریاض، کہتے ہیں کے ستمبر کے شروع میں شہری سیلابوں کے سلسلے میں آگست ۶ کو پیشن کی گئی تھی مگر کوئی بہتر اقدامت نہیں اٹھائے گئے، جس لاہور، راولپنڈی اور گجرانوالہ جیسے شہر زیر آب آگئے۔

 

وفاقی کلائمٹ چینج ڈویژن کے سابق ڈائریکٹر جنرل جاوید علی خان کہتے ہیں کہ حکومتی اداروں کی جانب سے ارلی وارننگز کے سلسلے میں غیرمناسب رویہ، غفلت کی وجہ سے ملک اور اُس کے لوگوں اور معیشت کو بھاری قیمت اداکرنی پڑرہی ہے۔

 

سلیم شیخ اور صغرا تنیو اسلام آباد میں نمائندگان برائے موسمیاتی تبدیلی ہیں۔

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->