×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

سیلابوں سے پاکستان میں قلت آب کی صورتحال مزید بگڑسکتی ہے، ماہرین

by Saleem Shaikh and Sughra Tunio | @saleemzeal | Thomson Reuters Foundation
Monday, 3 November 2014 11:58 GMT

In an ironic twist, extreme rainfall is pushing an already thirsty country toward catastrophic water shortages

پاکستان، اسلام آباد [تھامسن رائٹرزفائونڈیشن] ایسے وقت جب پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خطرات سے دوچار ہے، ماہرین کی طرف سے ایسی وارننگ کہ شدید سیلابوں کی وجہ سے یہ ملک شدید قلت آب سے دوچار ہوسکتا ہے حکومتی پالیسی سازوں کے لیے باعث پریشانی ہے۔

 

ماہرین موسمیاتی تبدیلی و پانی کہتے ہیں کہ عام ہوتے ہوئے  سیلابوں کی وجہ سے زیر زمین پانی کی کمی مزید شدید ہورہی ہے۔ 

 

زیر زمین پانی پاکستان کی بڑھتی ہوئی آبادی کی پینے اور صفائی ستھرائی کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ ملکی زراعت کے لیے بھی اہم ہے۔ مگر اب یہ زیرزمین ذخائر کم ہورہے ہیں، جن کی عام طورپر بارشوں اور برف کے پگلنے سے لیول بڑھتی ہے۔

 

مگر ماہرین نے خبردار کیا ہے پاکستان میں عام ہوتی ہوئی  مون سون کی بارشیں کم دورانیہ اور شدید ہورہی، جس کے نتیجے میں بارشوں کے پانی زیر زمین جانے کے بجائے تیزی بہہ جاتا ہے۔ ایسی صورتحالمیں بارشوں کے پانی کو زیرزمین جانے کے لیے بہت کم وقت ملتا ہے۔

 

پاکستان کے محکمہ موسمیات کے سائنسدان کہتے ہیں کہ کمزور اور وقفے وقفے سے ہونے والی بارشیں زیر زمین پانی کی سطح میں اضافے کے لیے مدد گار ثابت ہوتی ہیں، مگر بدقسمتی سے ایسی بارشیں اب غیر عام ہوتی جارہی ہیں۔ 

 

پاکستان میٹرولاجی ڈپارٹمنٹ کے ماہرموسمیات کہتے ہیں کہ پاکستان میں شدید بارشوں کی فریکوئنسی اور انٹینسٹی کے مزید عام ہونے کا خدشہ ہے، جو پہلے ہی محسسوس کی جارہی ہیں۔  

 

ان کا مزید کہنا ہے کہ پاکستان کے شمال مغرب اور شمال مشرق میں واقع علاقوں میں ہونے والی شدید بارشوں کی وجہ سے زیر زمین پانی کے ریچارج میں کوئی بہتری نہیں ہورہی ہے اور یہ ریچارج کافی حد تک کم ہورہی ہے۔

 

پاکستان پہلے ہے پانی کی موجودگی کی بگڑتی ہوئی صورتحال سے دوچار ہے۔ دسمبر ۲۰۱۳ میں، ورلڈ ریسورسز انسٹیٹیوٹ نے پاکستان کو ان ۳۶ ممالک کی فہرست میں رکھا، جہاں پانی کی شدید قلت ہے۔ 

 

پاکستان پلاننگ کمیشن کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ ۱۹۵۱ میں پرکیپیٹا پانی کی موجودگی ۵۶۵۰ کیوبک میٹر تھی جو ۲۰۱۰ میں ۱۰۰۰ کیوبک میٹر سے بھی کم ہوگئی اور یہ ۲۰۲۵ تک ۸۰۰ کیوبک میٹر تک پہنچ سکتی ہے۔

 

اگر زیر زمین پانی کی سطح اس طرح گرتی رہی تو پانی کی غربت میں شدت آسکتی ہے۔ 

 

پاکستان میں واٹرایڈ کے کنٹری ہیڈ، صدیق احمد خان کہتے ہیں کہ پانی کی فراہمی میں مزید کمی سے واٹر اور سینیٹیشن کے لیے درکار پانی کی صورتحال پر منفی اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔ پاکستان میں ہر سال، اس وقت ۱۲ لاکھ لوگ واٹر-بورن بیماریوں کی وجہ سے مرتے ہیں۔

 

ذراعت، اربنائیزیشن 

 

جب کہ بے ترتیب بارشوں کے سلسلوں سے پاکستان میں زیرزمین پانی پر منفی اثرات مرتب ہورہے ہیں، اس کے لیے صرف موسمی شدت پر الزام نہیں لگایا جاسکتا۔

 

پاکستان اریگیشن ریسرچ انسٹیٹیوٹ کے محمد جاوید کہتے ہیں کہ تقریباً ۱۱ لاکھ زرعی ٹیوب ویل اس وقت پاکستان میں زیرزمیں پانی نکالنے کے لیے استعمال کیے جارہے ہیں، جس سے زیرزمین پر مزید دباو پڑرہا ہے۔ 

 

تاہم لندن میں واقع کنگز کالیج کے پروفیسر اور ماہر واٹر پالیسی، دانش مصطفی کہتے ہیں کہ اربنائیزیشن سے زیرزمین پانی پر مزید منفی اثرات ہونگے۔ 

 

پاکستان واٹر گیٹ وے کی ایک رپورٹ کے مطابق، پاکستان میں ہر سال زیر زمین پانی کی سطح میں تین فیٹ کمی ہورہی ہے، جس کی وجہ سے گرتی ہوئی سطح سے زیر زمین پانی نکالنے کے لیے زیادہ توانائی خرچ ہورہی ہے۔ 

 

ماہر واٹر پالیسی، پرویز امیر کہتے ہیں کہ ایسے صورتحال کو روکنے کے لیے اقدامات اُٹھانے ہونگے۔

 

سالیوشنس

 

امیر کہتے ہیں کہ تاہم سیلاب ایسے مسائل کے لیے سالیوشن کا حصہ ہوسکتے ہیں۔ 

 

ان کا کہنا ہے کہ سیلابی پانی کو چھوٹے چھوٹے پانی کے ڈیم بناکر ذخیرہ کیا جاسکتا ہے، جس سے زیرزمین پانی کی سطح میں اضافے کے ساتھ ساتھ زرعی ایراضی کو مزید بڑہایا جاسکتا ہے، جس سے ملکی معشیت میں مزید ترقی آسکتی ہے۔

 

پرویز امیر کہتے ہیں کہ اس کے علاوہ اربنائیزیشن کی رفتا رکو آہستہ  کرنے، واٹر گورننس کو بہتر کرنے اور واٹر-سیونگ ٹیکنالاجی کے استعمال کو فروغ دینے کے لیےحکومتی سطح پر پالیسی اقدامات کی ضرورت ہے۔

 

سلیم شیخ اور صغرا تنیو پاکستان میں تھامسن رائٹرز فائونڈیشن کے لیے نمائندگان برائے موسمیاتی تبدیلی اور سائنس ہیں۔ 

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->