×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

ماحولیاتی ماہرین کا پاکستان میں کوئلے پر چلنے والے بجلی گھروں کی تعمیر پر تشویش کا اظہار

by Saleem Shaikh and Sughra Tunio | Thomson Reuters Foundation
Wednesday, 3 May 2017 00:15 GMT

Miner Mohammad Ismail, 25, digs in a coal mine in Choa Saidan Shah, Punjab province, April 29, 2014. REUTERS/Sara Farid/File Photo

Image Caption and Rights Information

"Pakistan must tap these unutilised vast underground reserves of 175 billion tonnes of coal, adequate to meet the country's energy needs for several decades," minister says

اسلام آباد، پاکستان [تھامسن رائٹرزفائونڈیشن] - ماحول دشمن کوئلے کے بجلی گھر لگانے کے لیے بڑے منصوبوں میں موجودہ پاکستانی حکومت کی بڑی سطح پر دلچسپی  کڑی تنقید کا نشانہ بن رہی ہے۔ 

 

ماحولیاتی ماہرین اندیشہ ظاہر کررہے ہیں کہ اس سے پاکستان میں ماحول اور لوگوں کی صحت کے ساتھ ساتھ پانی و آبھوا پر بھی تباہ کن اثرات مرتب ہونگے۔

 

ماہرین کہتے ہیں کہ جب دنیا کے دوسرے ممالک ایسے بجلی گھروں سے معالی اور ماحولیاتی طور پر غیرپائیدار ہونے کے باعث نجات حاصل کررہے ہیں، پاکستان میں کوئلے سے چلنے والے بجلی گھروں کی تعمیر کسی بھی باشعور ماحول دوست انسان کی سمجھ سے بالاتر ہے۔

 

وفاقی وزارت پانی و بجلی کے افسران کے مطابق، آنے والے ۱۵ سالوں کے دوران چائنا پاکستان اکنامک کوریڈر منصوبے کے تحت چائنیز کمپنیاں پاکستان میں ۱۱ کوئلے کے بجلی گھر نصب کریں گی جس پر ۱۵ پلین ڈالرز کی لاگت آئے گی۔ 

 

سابق وفاقی سیکریٹری پانی و بجلی محمد یونس دھاگہ کہتے ہیں کہ یہ بجلی گھر ۵۴ بلین ڈالرز کی لاگت سے پڑوسی دوست ملک چائنا کے تعاون  سے شروع ہونےوالہ دنیا کا بڑے منصوبے سی پیک کا ایک اہم حصہ ہیں۔ اس سی پیک منصوبے کے تحت کوئلے اور صاف توانائی کے کُل ۱۹ منصوبوں پر تقریباً ۳۵بلین ڈالرز خرچ ہونگے۔ 

 

سابق وفاقی سیکریٹری نے کہا، "توانائی کے اتنے بڑے منصوبوں سے کثیر رقم خرچ ہونے جارہی جس سے امید پیدا ہوگئی ہے کہ ملک کے بجلی کے نظام میں سال ۲۰۱۸ کے آخر تک تقریباً چھ ہزار میگاواٹ کا اضافہ ہوگا۔ جس کے نتیجے میں بڑی حد تک لوڈشیڈنگ میں کمی آئے گی۔"

 

حکومتی تفصیلات کے مطابق، سال ۲۰۳۰ تک ان مختلف بجلی کے ۱۹ منصوبوں سے کُل سولہ ہزار میگاواٹ بجلی ملک کے بجلی کے نظام میں شامل ہونگے۔ حکومتی سطح پر اس بات کا اظہار کیا جارہا ہے کہ سی پیک منصوبے کے تحت توانائی کے ۱۹ منصوبوں سے جو سولہ ہزار میگاواٹ بجلی پیدا ہونے جارہی ہے اس کا تقریباً پچھتر فیصد کلین ٹیکنالاجی پر چلنے والے کوئلے کے۱۱ بجلی گھروں سے پیدا ہوگی، جس سے ملکی میں بجلی کی تیزی سے بڑھتی ہوئی طلب کو پورا کیا جاسکے گا۔ اوراس سے ملکی معیشت کی رفتار میں بھی اضافہ ہوگا۔ کلین ٹیکنالاجی سے کوئلے کے بجلی گھروں سے کاربن امشنس میں کمی لانے میں بڑی حد تک مدد ملے گی۔

 

تاہم، ماحولیاتی اور صاف توانائی کے ماہرین اس بات پر بزد ہیں کہ یہ کوئلے کے بجلی گھر مکمل طور پر ماحول دوست نہیں ہوسکیں گے اور ان پر خرچ ہونے والی رقم ضائع ہوگی۔ ایسے ماہرین کا یہ بھی خیال ہے کہ اس سے عالمی سطح پر پاکستان کو تنقید کا سامنا بھی کرنا پڑسکتا ہے۔

 

اسلام آباد میں واقع کامسیٹ انسٹیٹوٹ آف انفرمیشن ٹیکنالاجی کے توانائی کے موضوع پر تحقیق کرنے والی ماہر سید جواد حیسن شہزاد کہتے ہیں کہ ان کوئلے کے بجلی گھروں سے نکنلے والے زہریلی گئسوں کے اخراج سے پاکستان کے کُل کاربن امشنس میں بری حد تک اضافہ ہوگا۔ 

 

عالمی اداروں کے رپورٹس کے مطابق، عالمی سطح پر ان زہریلی گئسوں یا کاربن امشنس کے اخراج کرنے والے ۱۹۸ ممالک کی فہرست میں پاکستان کا شمار کم ترین سطح یا  ۱۳۵لیول پر ہے اور پاکستان کا عالمی سطح پر ہونے والے کاربن امشنس کے اخراج کا ایک فیصد حصہ یا لگ بگ ۴۰۰ ملین ٹن کے برابر ہے۔

 

پاکستان میں اس وقت توانائی کی پیداوار اور طلب میں تقریا ۴۰۰۰ میگاواٹ کا فرق ہے۔ انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کے مطابق، اس وقت پاکستان میں بجلی کی طلب  کُل ۱۹۰۰۰ میگاواٹ ہے اور پیداوار ۱۵۰۰۰ میگاواٹ ہے۔  اور اس طلب میں گرمیوں کی موسم میں ۲۰۰۰۰ سے ۲۱۰۰۰ میگاواٹ تک کا اضافہ ہوجاتا ہے۔

 

 انٹرنیشنل انرجی ایجنسی نے خبردار کیا ہے کہ آدمشماری میں تیزی اضافے کے باعث سال ۲۰۲۵ تک بجلی کی طلب ۴۹۰۰۰ میگاواٹ تک پہنچ جائے گی۔ 

 

سال ۲۰۱۳ میں جاری ہونے والی ساوتھ ایشین انفراسٹرکچر رپورٹ میں عالمی بئنک نے کہا ہے کہ ملکی کی اب بھی تقریباً ۳۵ فیصد آبادی کو بجلی مہیا نہیں ہے۔ تاہم، ملک میں بڑھتی ہوئی آبادی اور معاشی شعبوں خآص کر صنعت اور زراعت، کی بجلی کی بڑھتی ہوئی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے پاکستان کو ہر سال سالانہ مجموعی ملکی پیداور یعنے جی ڈی پی کا تین اعشاریہ سات اور پانچ اعشاریہ پانچ کے درمیان بجلی کے نئے منصوبوں پر خرچ کرنا ہوگا۔   

 

وفاقی وزیر منصوبہ بندی، ترقی اور اصلاحات، احسن اقبال، کہتے ہیں کہ تھرپارکر ضلع میں دنیا کے بڑے کوئلے کے ذخائر موجود ہیں۔  

 

وفاقی وزیر کہتیں ہے، " ہمیں کوئلے کے ۱۷۵ بلین ٹن کے ان ذخائر کو  ملک میں توانائی کے بحران پر قابو پانے کے لیے اور کِئی دہائیوں تک بجلی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے ہمیں ضروراستعمال کرنا ہوگا۔ اس سے ملک میں غربت، بھوک، بیروزگاری کے خاتمہ کرنے کے ساتھ ساتھ ہزاروں نئے روزگار بھی پیدا کرنے میں مدد ملے گے۔"

 

وفاقی وزیر احسن اقبال مزید کہتے ہیں کہ سی پیک منصوبے کہ تحت لگائے جانے والے کوئلے پر چلنے والے ۱۱ بجلی گھروں میں سپرکرٹیکل ٹیکنالاجی نصب ہوگی جس سے ان توانائی کے پلانٹس سے زہریلی گئسوں یا کاربن امشنس کو بڑی حد تک کم کیا جاسکے گا اور یہ ٹیکنالاجی چائنا کے علاوہ یورپ اور امریکا میں بھی استعمال ہورہی ہے۔ ایسے کوئلے پر چلنے والے جدید اور ماحول دوست بجلی گھر گئس پر چلنے والے بجلی گھروں سے کسی بھی صورت کم نہیں ہونگے جن کے کاربن امشنس کا اخراج بڑی حد تک کم ہوتا ہے۔  کیونکہ ایسے کلین ٹیکنالاجی پر چلنے والے کوئلے کے بجلی گھروں کو توانائی کی پیداوار کے لیے بڑی حد تک کم کوئلہ درکار ہوتا ہے۔

 

پاکستان میں چائنہ کے سفیر سن وائی ڈانگ کہتے ہیں کہ سی پیک منصوبے کے تحت چائنہ صر کوئلے پر چلنے والے بجلی گھر تعمیر نہیں کررہا۔ چائنہ ماحول دوست اور صاف توانائی کے منصوبے، خاص کر شمسی اور ہوائی توانائی کے پراجیکٹس، بھی تعمیر کر رہا ہے۔ 

 

پاکستان میں چائنہ کے سفیر سن وائی ڈانگ کہتے ہیں کہ سی پیک منصوبے کے تحت چائنہ صرف کوئلے پر چلنے والے بجلی گھر تعمیر نہیں کررہا۔ چائنہ ماحول دوست اور صاف توانائی کے منصوبے، خاص کر شمسی اور ہوائی توانائی کے پراجیکٹس، بھی تعمیر کر رہا ہے۔ 

 

سفیر نے مزید کہا کہ ایسے صاف توانائی کے منصوبوں میں بھاولپور کے سولر پارک، ونڈ انرجی کے چار اور پن بجلی کے تین منصوبے بھی سی پیک پراجیکٹ میں شامل ہیں، جن سے کُل ۳۹۰۰ میگاواٹ بجلی پیدا ہوگی۔

 

تاہم وفاقی وزیر احسن اقبال کہتے ہیں کہ سی پیک منصوبے کے تحت سال ۲۰۳۰ تک تقریبا ساڑھے سات بلین ڈالرز خرچ ہونگے۔

 

پاکستان کے الٹرنیٹو انرجی ڈوولپمنٹ بورڈ کے مطابق، پاکستان میں سالانہ انتیس لاکھ میگاواٹ بجلی شمسی توانائی سے، تین لاکھ چالیس ہزار میگاواٹ بجلی ہوا سے اور ایک لاکھ میگاواٹ بجلی پانی سے بنائی جاسکتی ہے، جو  کوئلے کے برعکس سستی ترین، پائیدار اور ماحول دوست ہے۔ 

 

ماہرین ماحولیات اور صاف توانائی کہتے ہیں کہ حکومت کو اتنے بڑے پیمانے پر موجود ماحول دوست صاف توانائی کے ملک میں موجود ذرائع سے بجلی کے منصوبے بنانے پر مزید کام کرنا چاہیے۔ اس سے لوگوں کو پائیدار، ماحول دوست اور سستی ترین بجلی مہیا ہوگی اور اس سے پاکستان کا عالمی سطح پر پذیرائی کے علاوہ بڑی بین الاقوامی اور مقامی کمپنیاں انوسٹمنٹ کرسکتی ہیں، جس سے ملکی معیشت میں تیزی سے اضافہ ہوگا۔

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->