Source: http://www.trust.org/item/20130711133533-z7p9x/


Use of this content is subject to the following terms and conditions: http://www.trust.org/terms-and-conditions/



بجٹ میں کٹوتی سے پاکستان کے موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے والے اقدامات کھٹائی میں پڑ سکتے ہیں


By Saleem Shaikh and Sughra Tunio | Thu, 11 Jul 2013 01:35 PM



راولپنڈی، پاکستان  (تھامسن رائٹرز  فائونڈیشن) – پاکستان کی کلائمٹ چینج ڈویژن کی نئے مالی سال برائے (2013-14) کے لیے  ترقیاتی بجٹ میں کمی راولپنڈی میں واقع  نالہ لئی کی دونوں اطراف  میں واقع گھروں میں رہنے والے لوگوں  کے لئےبلواسطہ کوئی پریشانی کا باعث نہیں ہے، مگر  کسی بھی طرح فنڈز کی ضرورت پر مہیا نہیں ہونا  ان لوگوں کو کسی بھی وقت تباہی کی طرف دھکیل سکتی ہے۔

اسلام آباد سے تقریبا 30 کلومیٹر  دور نالہ لئی  ماضی میں کئی مرتبہ مون سون کی موسم کے دوران شیدید بارشوں کی وجہ سے سیلاب آتا ہے ۔ سن 2001 میں  اس نالے میں سیلاب آنے سے 35 جانیں بہہ گئی تھیں اور کئی گھر تباہ ہوگئے تھے۔ مون سون کی موسم آنے سے ہفتوں پہلے، نالہ لئ کو کوڑا کرکٹ سے بند ہونے والے راستوں کو صاف کیا جا تا ہے تاکہ بارشوں کے دوران اس میں سیلاب جیسی صورتحال پیدا نہ ہو سکے۔ مگر اب تک اس کو صاف نہیں کیا گیا ہے اوراس کے آس پاس میں رہنے والے لوگ خوف میں مبتلا ہیں کہ اس سے ان کی جانوں اور گھروں کو خطرہ لاحق ہے۔  

وفاقی وزیر برائے فنانس اسحاق ڈار جون میں نئے مالی سال برائے (2013-14) کے لیے   اپنی بجٹ تقریر کے دوران کلائمٹ چینج ڈویژن کی ترقیاتی بجٹ میں گذشتہ مالی سال کے برعکس62 فیصد کٹوتی کا اعلا ن کیا تھا ، جس پر ماہرین ماحولیات ، موسمیاتی تبدیلی ، ترقیات ، پانی ، زراعت اور صحت نے شدید برھمی کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا ہے  اس اہم ڈویژن کی ترقیاتی بجٹ می کمی سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت پاکستان موسمیاتی تبدیلی کے نتیجے میں ملک میں ہونے والے ممکنہ تباہیوں سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ نہیں ہے۔

اس کے علاوہ ایسے کئی نالے ہیں جو کوڑا کرکٹ کی وجہ سے بند ہوگئے ہیں  اور جن کو صاف کرنے کی ضرورت ہے۔

راول پنڈی کی تعلقہ میونسپل کے افسران کہتے ہیں کہ فنڈز کی عدم دستیابی کی وجہ سے ان نالوں کی سالانہ صفائی نہیں ہو سکی ہے۔

وفاقی وزیر برائے فنانس اسحاق ڈار نے  نئے مالی سال برائے 2013-14 کے لیے کلائمٹ چینج ڈویژن کی ترقیاتی بجٹ کے لیے 59 ملین روپے رکھے ہیں ، جب کے اگلے مالی سال 2012-13 کے لیے 135 میلن روپے رکھے گئے تھے۔

اس ترقیاتی بجٹ کا دوتہائی اس ڈویژن کے چار جاری منصوبوں کے لیے رکھے گئے ہیں۔ صرف دو نئے منصوبوں- ڈوولپمنٹ آف انفارمیشن سسٹم ٹو مئنیج واٹر 
اینڈ سینی ٹیشن اور اسٹبلشمنٹ آف ہائی ٹیک کلائمٹ مانیٹرنگ سینٹر- کے لیے باقی رقم مختص کردی گئی ہے۔

نواز حکومت نے آسٹرٹی اقدامات کے تحت، تمام وفاقی وزارتوں اور ڈویژنوں کے  غیرتنخواہ اخراجات میں30 فیصد تک کمی کا بھی اعلان کیا ہے۔

حکومت نے وفاقی وازرتون کے تعداد میں کمی کرکے ان کی تعداد 40 سے 28 کردیا ہے تاکہ وفاقی حکومت کے اخراجات کم کیے جاسکیں۔ وفاقی وزیر برائے مالیات اسحاق ڈار نے اپنی بجٹ تقریر کے دوران پارلیمان کو بتایا تھا کہ یہ بجٹ سے منصلق اخراجات سے تقریباً 40 بلین روپے نئے مالی سال کے دوران میں بچائے جائیں گے۔

مگر ماہرین ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی اور ڈویژن برائے موسمیاتی تبدیلی میں کام کرنے والے افسران کہتے ہیں کہ اس ڈویژن کی ترقیاتی بجٹ میں کٹوتی ان کی سمجھ سے باہر ہے، جس کے منفی اثرات مرتب ہونگے۔

ڈویژن برائے موسمیاتی تبدیلی کے ایک سینئر افسر کا کہنا ہے کہ یہ بجٹ کٹوتی اس طرح ہے جیسے کسی کو بغیر پیٹرول کے گاڑی چلانے کو کہنا جو کہ سراسر نا ممکن ہے۔ اور اب موسمیاتی تبدیلی کے مختلف معاشی سیکٹروں جیسے زراعت اور پانی پر پڑنے والے منفی اثرات سے نمٹنا مشکل تر ہوجائے گا۔

اس سینئر افسر نے تھامسن رائٹرز فائونڈیشن کو مزید بتایا کہ ڈویژن برائے موسمیاتی تبدیلی نے نئے مالی سال کے لئے جو اس سال جولائی سے شروع ہوگیا ہے کے لئے تقریباً ایک سو ملین روپے ترقیاتی اخراجات کی مد میں پلاننگ کمیشن سے مانگے گئے تھے مگر صرف 58 ملین روپے منظور ہوئے۔

انہوں نے برھمی کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ یہ بجٹ کٹوتی ہمارے لئے حیران کن ثابت ہوئی۔ اس کے علاوہ اس کمیشن نے ڈویژن کی پانی، زراعت اور رنیوایبل انرجی سے وابسطہ منصوبے بھی رد کردیے۔

اس ڈویژن برائے موسمیاتی تبدیلی کے سابقہ ڈائریکٹر جنرل برائے ماحولیات نے کہا کہ اس بجٹ کٹوتی سے ظاہر ہوتا ہے کہ موجودہ حکومت موسمیاتی تبدیلی کے منفی اثرات سے ناواقف ہے۔ اور اس ڈویژن کے لئے اقوام متحدہ کی مختلف ایجنسیوں کے تعاون سے چلنے والے منصوبوں کو جاری رکھنا بھی مشکل ہوجائے گا۔