×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

پاکستان میں سیاست دان ماحولیات کی حفاظت میں ناکام رہے: پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق

by Waqar Mustafa | Thomson Reuters Foundation
Tuesday, 29 April 2014 09:00 GMT

A leading rights group in Pakistan has criticised politicians for neglecting environmental issues in their electoral campaigns, and for spending too little on action to tackle climate change

 

لاہور، پاکستان (تھامسن رائٹرزفاﺅنڈیشن): پاکستان میں حقوق سے متعلق ایک اہم ادارے نے ملک میں سیاستدانوں کو اپنی انتخابی مہم میں ماحولیات کو نظرانداز کرنے اور ماحولیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لیے کم وسائل مختص کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔

 

 انسانی حقوق کی صورت حال کی سالانہ رپورٹ برائے سال ۲۰۱۳ میں پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق کا کہنا ہے کہ ماحولیاتی مسائل سے عوامی پالیسی کے ثانوی امور کے طور پرصرف نظر نہیں کیا جا سکتا۔ 

 

رپورٹ میں عالمی بینک کے حوالے سے بتایا گیا کہ ماحولیاتی آلودگی مجموعی ملکی پیداوار میں چھ فی صد سالانہ کمی کا باعث ہے جس کا بوجھ غیرمتناسب طور پر غریبوں پر پڑتا ہے۔

 

گذشتہ جمعرات کو جاری ہونے والی اس رپورٹ میں کہا گیا کہ ایسے برے اعداد وشمار کے باوجود مئی 2013 کے عام انتخابات سے پہلے سیاسی جماعتوں نے واضح طور پر اپنے اپنے منشور میں اس مسئلے سے پہلوتہی کی۔

 

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ بڑی سیاسی جماعتوں، پاکستان مسلم لیگ۔نواز، پاکستان پیپلز پارٹی، پاکستان مسلم لیگ، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) اور عوامی نیشنل پارٹی نے ماحولیاتی تحفظ اور آلودگی پر قابو پانے کو کم ترجیح دی۔

 

ماحولیاتی پالیسی پیش کرنے والی واحد جماعت عمران خان کی پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) تھی جس میں شعبہ جاتی اقدامات مثلا چھوٹے پیمانے پر پائیدار اور ماحول دوست کاشت کاری، ماحولیاتی سیاحت اور پانی کے زیادہ موثر انتظام اور استعمال کے ذریعہ ماحول دوست معیشت کے قیام پر زور دیا گیا۔

 

پی ٹی آئی جو اس وقت مرکز میں حزب اختلاف کی ایک اہم جماعت ہے اور صوبہ خیبر پختون خوا میں، جہاں جنگلات تیزی سے ختم ہو رہے ہیں حکمران اتحاد کی رہنما جماعت ہے، نے جنگلات کی کٹائی پر قابو پاتے ہوئے ان میں تین سے چھ فی صد اضافہ بھی تجویز کیا۔

 

ماحولیات کے ماہرین نے تحریک انصاف کی پالیسی کا خیرمقدم کیا مگر ساتھ ہی اس پر عمل درآمد کے حوالے سے شکوک کا اظہار بھی کیا۔

 

وکیل اورماحولیاتی کارکن احمد رافع عالم کا کہنا ہے کہ ایسے مسائل منشور میں جگہ پا بھی لیں توان پر شاذونادر ہی عمل ہوتا ہے۔ انہوں نے لاہور کی مثال دیتے ہوئے کہا کہ انتخابات سے پہلے یہاں کم وبیش سب ہی امیدواروں نے پینے کے صاف پانی اور صفائی کی بات کی مگر جونہی نمائندے چنے گئے یہ مسائل ان کی توجہ کا مرکز نہ رہے۔ 

 

آب وہوا کے اخراجات میں کمی

 

چونکہ ماحولیات کا مسئلہ سیاسی جماعتوں کی ترجیح نہیں تھا اس لیے کمیشن برائے انسانی حقوق کے مطابق درپیش ماحولیاتی مسائل کے سامنے ماند سا حکومتی جواب حیرت کا باعث نہیں تھا۔

 

ایچ آر سی پی کی سالانہ رپورٹ کے مدیر نجم الدین کا کہنا ہے، "پاکستان کے ماحول کو جن بہت سے مسائل کا سامنا ہے وہ نچلی سطح سے لے کر فیصلہ سازوں تک میں ان کے ادراک، ترجیح، منصوبہ بندی اور وسائل کی کمی کے باعث اور زیادہ گمبھیر ہو جاتے ہیں۔"

 

 انہوں نے مزید کہا، "ان عوامل کا براہ راست اثر زندگی، صحت، کام، رہائش  ایسے دوسرے حقوق پر پڑتا ہے۔ ہم ماحول اور آب و ہوا کی تبدیلی کو کتنی اہمیت دیتے اس کے لیے مختص بجٹ ہی سے عیاں ہے جو کم سے کم ہوتا جا رہا ہے۔ "

 

ماحولیات کو اہمیت نہ دینے کااشارہ اس سے بھی ملتا ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف کی قیادت میں مسلم لیگ-ن کی حکومت نے اپنے دور کا آغاز ماحولیاتی تبدیلی کے منصوبوں کے لئے بجٹ میں کمی سے کیا۔ 2013-2014 کے لئے بجٹ میں پچھلے سال کے 135 ملین کے مقابلے میں صرف 59 ملین روپے (تقریبا چھ لاکھ ڈالر ) موسمیاتی تبدیلی ڈویژن کے لیے مختص کیے گئے۔

 

 ماحولیات کے ماہررافع عالم کے مطابق نہ صر ف ماحولیات کے بجٹ میں، سرکاری طور پر سادگی کے لئے،کمی کی گئی بلکہ آب و ہوا کی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے وزارت برائے موسمیاتی تبدیلی کو کم کر کے ڈویژن کا درجہ دے دیا گیا۔اور ایسا 2012 کے موسمیاتی تبدیلی کی قومی پالیسی کے ماحولیاتی تبدیلی کے چیلنجوں کی "بقا کے بڑے خدشات " کے طور پر نشاندہی کے باوجود ہوا۔

 

ایچ آر سی پی نے پاکستانی حکومت پر زور دیا کہ اس کی تمام منصوبہ بندی اور ترقی کے عمل میں موسمیاتی تبدیلی ایک اہم نکتہ؛ ہونا چاہیے، اوریہ کہ وہ اس سے متعلق عدم مساوات کا تدارک کرے۔

 

رپورٹ میں کہا گیا: "غریب افراد اور خواتین کے ساتھ ساتھ خطرے سے دوچار دیگر کمیونٹیز پر آب و ہوا کی تبدیلی کے غیر متناسب اثرکو سمجھنے اوران کا بوجھ کم کرنے کے لئے کوششوں اورموسمیاتی تبدیلی کے بنیادی صنفی عدم مساوات کو موافقت کی موثر حکمت عملی کے ذریعہ دور کرنے کی ضرورت ہے۔"

 

 آلودہ ہوا اورپانی

 

ایچ آر سی پی کی رپورٹ میں زور دیاگیا کہ ملک میں تمام ہلاکتوں میں 40 فیصد پانی سے متعلق بیماریوں کی وجہ سے ہوئیں ۔ بہت سے ماہرین ماحولیات پانی کو پاکستان میں سب سے اہم سماجی، سیاسی ، قانونی اور اخلاقی مسئلہ سمجھتے ہیں۔

 

عالم نے کہا، "پاکستان پانی کے معیار کے بحران سے دوچار ہے. اموات ، صحت کو پہنچنے والے نقصان، بنیادی ڈھانچے کے اخراجات وغیرہ جو پینے کے پانی سے منسلک ہیں، سے مجموعی ملکی پیداوارمیں4 فیصد کے قریب کمی آتی ہے۔ "

 

انہوں نے کہا، "یہ بات حیرت انگیز ہے کہ آلودہ پانی ،اموات میں سے نصف اور ہر دوسرے پاکستانی کے ہسپتال میں ہونے کا باعث ہونے کے باوجود ، ابھی تک ملک کا اہم سیاسی مسئلہ نہیں ہے۔" 

 

رپورٹ میں عالمی ادارہ صحت کی ایک تحقیق کے حوالہ سے بتایا گیا ہے کہ پاکستانی شہروں لاہور، کوئٹہ اور پشاور کا شمار دنیاکے 10 آلودہ ترین شہروں میں ہوتاہے۔

 

عالم کے مطابق "لاہور میں ہوا کا معیارماپنے کے آلات سالہاسال سے کام نہیں کررہے. ماحولیات کے تحفظ کے محکمہ کے پاس ہوا کے معیار کی پیمائش کے لئے ضروری سامان کو ٹھیک حالت میں رکھنے کے لیے ہر سال درکارتین کروڑ روپیہ نہیں ۔"

 

انہوں نے زوردیکر کہا کہ صورتحال بہت بھیانک، بہت بھیانک، بہت بھیانک ہے۔

 

ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق، رکازی ایندھن سے چلنے والے پاور پلانٹس ، گاڑیوں اور صنعتوں سے نکلنے والا دھواں ہوا کی آلودگی کی بڑی وجہ ہے۔ پاکستان میں دھول اور دھویں کے ذرات عالمی اوسط سے دوگنا ہیں۔

 

غیر قانونی کٹائی

 

پاکستان میں جنگلات کا رقبہ بھی انتہائی کم ہے۔رپورٹ کے مطابق مارچ 2013 میں سابقہ حکومت نے مختصر عرصہ کے لیے پالیسی میں ایک متنازعہ تبدیلی کے تحت قانونی اور غیر قانونی لکڑی کی نقل و حرکت اور ہزاروں درختوں کی کٹائی کی منظوری دی۔

 

اپنی حکومت کی مدت ختم ہونے سے ایک دن پہلے سابق وزیر اعظم راجا پرویز اشرف نے ایک پالیسی کے تحت لکڑی گلگت بلتستان میں دیامر سے منتقل کرنے کی منظوری دی۔قانونی طور پر کاٹی گئی 2 ملین مکعب فیٹ لکڑی، جو مقامی افراد کے مطابق خراب ہو رہی تھی، کے ساتھ ساتھ ٹھیکیداروں سے جرمانہ کی وصولی کے بعد غیر قانونی طور پر کاٹی گئی 1.9 ملین مکعب فیٹ لکڑی کی تجارت کی اجازت دے دی گئی۔

 

اس پالیسی سے جسے مقامی افراد اور ماہرین ماحولیات دونوں نے تنقید کا نشانہ بنایا، جنگلات کی کٹائی کو روکنے کے لئے 1993ء سے عائد گلگت بلتستان سے عمارتی لکڑی کی نقل و حرکت پرپابندی ختم ہو گئی۔ سرگرم کارکنوں کے مطابق اس پالیسی سے لکڑی کے سمگلروں نے خوب فائدہ اٹھایا جونئے درختوں کو کاٹ کر پرانی لکڑی کی آڑ میں ملک کے جنوب کی جانب نقل و حمل کرتے تھے ۔فروری اور جولائی2013 کے درمیان مبینہ طور پر دیامر میں تھور اور بٹوگا وادیوں سے کم از کم دو لاکھ درخت کاٹے گئے۔

 

نئی حکومت نے جولائی میں یہ متنازعہ حکم واپس لے لیا ۔ اس اقدام کو جنگلات کے بچاﺅ کے لیے کام کرنے والوں کی ملک کی طاقتور " ٹمبر مافیا " پرغیر معمولی اور اہم فتح قرار دیا گیا۔ 

 

تحریک انصاف کی قیادت میں، شمال مغرب میں واقع صوبہ خیبر پختونخوا حکومت نے لکڑی کی کٹائی اور نقل وحمل پر پابندی لگا دی، آرا مشینیں ممنوع قرار دے دیں اور ہزارہ میں جنگلات کو تحفظ فراہم کرنے کی کوشش میں نقل و حمل کے اجازت ناموں کا اجراء بند کر دیا۔لیکن، ایچ آر سی پی کی رپورٹ کے مطابق طاقتور لکڑی مافیا نے کھلے عام قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے مقامی حکومت اور پولیس حکام کی مدد سے درختو ں کی غیر قانونی کٹائی علاقے میں جاری رکھی۔

 

زیارت بلوچستان میں دنیا کا دوسرا بڑا صنوبر کے جنگللات جو ڈھائی لاکھ ایکڑ کے علاقے پر محیط ہے، بھی لکڑی مافیا کی اور ایک چھوٹی حد تک، کھانا پکانے اورسردی سے بچاﺅ کے لیے مقامی لوگوں کی جانب سے غیر قانونی کٹائی کا شکار ہے۔

 

رپورٹ کے مطابق یونیسکو نے زیارت کے صنوبر جنگل کوایک کرہ حیات کا محفوظ سرمایہ قرار دیا ہے لیکن حکومت نے اس کی حفاظت کے لئے کوئی اقدامات نہیں کیے۔

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->