×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

پاکستانی کسانوں نے حکومت کی طرف سے بجلی پر دی جانے والی رعایت مسترد کر دی

by Aamir Saeed | @AamirSaeed_ | Thomson Reuters Foundation
Thursday, 8 January 2015 09:25 GMT

Farmer Riaz Khan works on his farmland in the outskirts of Faisalabad city, Pakistan. TRF/Aamir Saeed

Image Caption and Rights Information

Weather-hit farmers say power price cut won't help them, want financial assistance for inputs instead

فیصل آباد،پاکستان (تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن) ۔۔ پاکستانی کسانوں نے حکومت کی طرف سے بجلی کی قیمت پر دی جانے والی رعایت کو ایک سیاسی حربہ کہہ کر مسترد کر دیاہے اور مطالبہ کیا ہے کہ انہیں کھاد، بیج اور کیڑے مارادویات پر مالی امداد دی جائے۔

 

پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین محمد انور کا کہنا ہے کہ حکومت نے کسانوں کو بجلی کی قیمتوں پر اس لئے رعایت دینے کا فیصلہ کیا کیونکہ سینکڑوں کسانوں نے حال ہی میں بجلی کے بل جلا دیے تھے،حکومت کی خراب زرعی پالیسیوں کی وجہ سے کسانوں کو ۳۰۰۰۰ روپے فی ایکڑکپاس کی فصل پر جبکہ ۲۵۰۰۰روپے فی ایکڑ چاول کی فصل پر نقصان ہو رہا ہے۔ انکا کہنا ہے کہ برے موسم، سیلاب،خشک سالی اور ایجنٹوں کی وجہ سے فصلیں خراب ہوتی ہیں اور کسانوں کو اس سے نقصان پہنچ رہا ہے۔

 

بہت سارے کسان حکومت سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ انکی فصلوں کی منڈی میں پہنچنے سے پہلے قیمتیں مقرر کی جائیں اور کھاد اور بیج کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے نمٹنے کے لئے انکی مدد کی جائے۔

 

گزشتہ سال نومبر کے آخر میں، حکومت نے اعلان کیا کہ وہ کسانوں سے بجلی کی ایک مقرر شدہ دس روپے پینتیس پیسے فی یونٹ قیمت وصول کرے گی،جو کہ معمول کی قیمت سے آدھی ہے۔اس مراعات کا اطلاق گزشتہ تاریخ سے ہوگا جو جولائی ۲۰۱۴ سے جون ۲۰۱۵ تک قابل عمل رہے گا۔کسانوں کو بجلی کی قیمت پر چھوٹ کی مد میں حکومت ۲۲ ارب روپے کا بوجھ برداشت کرے گی۔

 

صوبہ پنجاب کے ضلع فیصل آباد کے کسان ریاض خان کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس رقم سے کھاد اور بیجوں کی قیمت کم کرنے کے لئے استعمال کرنا چاہیے،بجلی کی قیمتوں پر رعایت حکومت کی طرف سے ایک سیاسی حربہ ہے کیونکہ اس سے کسانوں کو کوئی حقیقی فائدہ نہیں ہو گا، دن میں کسانوں کو صرف دو سے تین گھنٹوں کے لئے بجلی ملتی ہے جس میں وہ اپنی زمین کو سیراب نہیں کر سکتے ۔

 

حکومتی پالیسی کی مطابق کسانوں کو زیادہ استعمال کے اوقات یعنی سردیوں میں شام چھ سے دس بجے تک اور گرمیوں میں شام پانچ سے گیارہ بجے تک بجلی نہیں ملے گی،جبکہ پورے ملک میں روزانہ دس سے بارہ گھنٹے کی لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔

 

پاکستان کے معاشی سروے ۲۰۱۳-۱۴ کے مطابق، زرعی شعبہ کا ملک کی مجموعی پیداوار میں پانچواں حصہ ہے جبکہ تقریباپچاس فیصد لوگ زرعی شعبہ سے براہ راست وابستہ ہیں۔

 

لیڈ پاکستان سے وابستہ ایک ماحولیاتی آلودگی کے ماہر قمرالزمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں گیارہ لاکھ سے زائد زرعی ٹیوب ویلز ہیں ، جن میں سے صر ف تیس فیصد بجلی پر چلتے ہیں،بجلی کی قیمت پر رعایت ایک خوش آئند چیز ہے لیکن اس سے صرف محدود تعداد میں ہی کسانوں کو مدد ملتی ہے۔

 

انکا کہنا ہے کہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ کسانوں کو ایندھن، کھاداور بیج کی قیمتوں پر رعایت دے کیونکہ اس سے کسانوں کی آمدن بھی بڑھے گی اور فصلوں کی پیداوار بڑھانے میں بھی مدد ملے گی۔انکا کہنا ہے کہ ٹیوب ویلز کو چلانے میں ہر سال دو ہزار ملین لیٹر ڈیزل خرچ ہوتا ہے، اس لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ کسانوں کو اپنے ٹیوب ویلز شمسی توانائی پر تبدیل کرنے میں مدد دے، اس سے نہ صر ف کاربن کے اخراج کو کم کرنے میں مدد ملے گی بلکہ کسانوں کی آمدن بھی بڑھے گی۔

 

پاکستان کسان اتحاد کے چیئرمین انور کا کہنا ہے کہ حکومت کو کسانوں کے نقصانات کم کرنے اور انہیں بجلی کے ٹیوب ویلز لگانے کے لئے ٹھوس اقدامات اٹھانے چاہیے،حکومت اس وقت کھاد کی قیمتوں پر ۱۷ اعشاریہ پانچ فیصد جبکہ کیڑے مار ادویات کی قیمت پر ۲۲ فیصد جنرل سیلز ٹیکس وصول کررہی ہے، چھوٹے کسانوں کی مدد کرنے کے لئے اس ٹیکس کو یکسر ختم کردینا چاہیے۔

 

پاکستان زرعی تحقیقاتی کونسل کے سابقہ چیئرمین ظفر الطاف کا کہنا ہے کہ فصلوں کی پیداوار اور کسانوں کی آمدن بڑھانے کے لئے حکومت اور تحقیقاتی اداروں کو فصلوں کی نئی اقسام تیار کرنے پر توجہ دینی چاہیے،کسانوں کو جن مسائل کا سامنا ہے اس کو مد نظر رکھتے ہوئے بجلی کی قیمتوں میں کمی کوئی طویل مدتی حل نہیں ہے،پاکستانی کسان بین الاقوامی منڈی میں صر ف اسی وقت مقابلہ کر سکیں گے جب انکی فصلوں کی پیداوار بڑھے گی۔

 

انکا کہنا ہے کہ حکومت جدید زرعی ٹیکنالوجی کے استعمال کا فروغ بڑھانے کے لئے بھی کسانوں کی تربیت پر سرمایہ کاری کرے، مثال کے طور پر کثیر تعداد میں پانی اور سرمایہ کو بچایا جا سکتا ہے اگر کسان اپنی زمینوں کو سیراب کرنے کے لئے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع کردیں۔

 

ایشیائی ترقیاتی بینک کے مطابق،پاکستان دنیا کے ان ممالک میں شامل ہیں جہاں فی آدمی پانی کی مقدار تیزی سے کم ہورہی ہے،جو اب فی بندہ ایک ہزار مکعب میٹرفی سال کی سطح پر پہنچ گئی ہے۔گلوبل واٹر پارٹنر شپ کے کنٹری ڈائریکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ ایسی فصلیں جو زیادہ پانی استعمال کرتی ہیں اور ایسی فصلیں جن کے لئے کم پانی چاہیے ان میں توازن پیدا کرنے کی ضرورت ہے، انہوں نے تنبیہ کی کہ بجلی کی قیمتوں پر رعایت سے زیرزمین پانی کی سطح کم ہو سکتی ہے جیسا کہ پاکستان کے ہمسایہ ملک بھارت میں ہوا ہے۔

 

انکا کہنا ہے کہ بھارت میں کسانوں کو دی جانے والی سبسڈی کے باعث، پاکستان کے سرحدی علاقوں میں کسانوں پر پہلے ہی اسکے منفی اثرات نمایا ں ہیں، بھارت میں زیر زمین پانی کے زیادہ استعمال کی وجہ سے پاکستانی علاقوں میں بھی ساٹھ سے ستر فٹ زیر زمین پانی کی سطح کم ہو گئی ہے۔اس وقت حقیقی چیلنج یہ ہے کہ پاکستانی کسانوں کو ترقی یافتہ ملکوں کے کسانوں کے ہم پلہ لانے کے لئے بجلی کی قیمتوں میں عارضی کمی کے بجائے ٹھوس اقدامات کیئے جائیں۔

 

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->