×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

شمسی لالٹینیں پاکستانی خواتین کی زندگی بدل رہی ہیں

by Aamir Saeed | @AamirSaeed_ | Thomson Reuters Foundation
Monday, 27 July 2015 14:18 GMT

Children study by solar lantern in Pakistan. Photo: Buksh Foundation

Image Caption and Rights Information

In power-short Pakistan, setting up rural women as solar power vendors improves incomes and access to energy


بہاولپور، پاکستان (تھامسن رائٹرزفاؤنڈیشن) ۔ بہاولپور کے ایک گاؤں میں جونہی رات کی تاریکی پھیلنا شروع ہوتی ہے، شمع بی بی شمسی لالٹین جلاتی ہے اور اپنے خاندان میں آنے والی ایک شادی کے لئے نئے کپڑے سینا شروع کر دیتی ہے۔

جبکہ یہ زیادہ پہلے کی بات نہیں ہے کہ رات کی تاریکی کے ساتھ ہی اسکا کام ختم ہو جاتا تھا لیکن اب شمسی لالٹین کی وجہ سے وہ جب تک چاہے اپنا کام کرسکتی ہے۔ تین بچوں کی ماں اور بیوہ کا کہنا ہے کہ شمسی لالٹین سے اسکی زندگی میں انقلاب آگیا ہے۔

پاکستانی شہر لاہورمیں قائم ایک غیر سرکاری تنظیم بخش فاؤنڈیشن دیہی علاقوں میں شمسی توانائی کے فوائد پہنچانے کے لئے خواتین کو تربیت دے رہی ہے۔بھارتی ادارے انرجی اینڈ ریسورسز انسٹیوٹ کے تعاون سے ایک ملین لوگوں تک شمسی توانائی پہنچانے کے لئے مختلف دیہاتوں میں شمسی اسٹیشنیں قائم کرنا شروع کردیں ہیں۔

ملک کے مختلف حصوں میں اب تک اس تنظیم نے ایک سو پچاس سولر سٹیشن لگا دیے ہیں جبکہ ۷۱۰۲تک چار ہزارگاؤں تک پہنچنا اسکا ہدف ہے۔

ہر گاؤں میں دو خواتین کو تربیت دینے کے ساتھ ساتھ پچاس شمسی لالٹینیں بھی دی جاتی ہیں، جنہیں بعد میں وہ لوگوں کو چار روپے فی لالٹین کے کرایہ پر دیتی ہیں،جس سے وہ پانچ ہزار پانچ سو روپے ماہانہ کما لیتی ہے۔ ایک سولر سٹیشن لگانے پر تقریبا پانچ ہزار پانچ سو امریکی ڈالر خرچہ آتا ہے جو مختلف ڈونر دیتے ہیں۔

شمع بی بی کا کہنا ہے کہ اس نے اپنے سب سے چھوٹے بیٹے کو سکول بھیجنا شروع کردیا ہے کیونکہ شمسی لالٹینوں کو کرایہ پر دے کر کافی پیسے کما لیتی ہے۔ 

عالمی بینک کے مطابق پاکستان میں چوالیس فیصد گھروں میں اب بھی بجلی نہیں ہیں جبکہ ان میں سے اسی فیصد دیہی علاقوں میں ہیں۔ بینک کے ۲۱۰۲ کے ایک سروے کے مطابق، ان میں سے آدے گھروں میں روشنی کرنے کے لئے مٹی کا تیل استعمال کرتے ہیں، جبکہ کچھ مٹی کے تیل کی قیمت زیادہ ہونے کی وجہ سے موم بتی استعمال کرتے ہیں۔

بخش فاؤنڈیشن کی چیف ایگزیکٹو افسر فضا فرحان کا کہنا ہے کہ انکی تنظیم خواتین کو بااختیار بنانے کے لئے ملک کے دور دراز علاقوں میں شمسی توانائی کے فوائد پہنچانے کے لئے پرعزم ہے۔

انکا کہنا ہے کہ شمسی لالٹین کی وجہ سے نہ صرف خواتین مالی فوائد لے رہی ہیں بلکہ اس سے ماحول کو خراب کرنے والی کاربن کا اخراج میں بھی کمی آتی ہے۔ 

فضا فرحان کامزید کہنا ہے کہ انکے لاہور میں واقع دفتر میں ایک مددگار دفتر بنایا گیا ہے جو چوبیس گھنٹے لوگوں کی مدد فراہم کرنے کے لئے کھلا رہتا ہے۔ زیادہ سے زیادہ خواتین اسکی تربیت حاصل کرنا چاہتی ہیں، لیکن فی الحال ہم ایک گاؤں میں صرف دو خواتین کو ہی تربیت دیتے ہیں۔

ماحولیاتی ماہر قمرالزمان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں توانائی کے بحران پر صرف اسی صورت قابو پایا جا سکتا ہے۔ اگر حکومت اس طرح کے منصوبوں کے لئے مالی اور ٹیکنیکل مدد فراہم کرے تو اس بحران پر کافی حد تک قابو پایا جاسکتا ہے۔ 

پاکستان میں سال بھر بجلی کا بحران رہتا ہے اور گرمیوں میں تو یہ یومیہ سات ہزار میگا واٹ تک بھی جا پہنچتا ہے،ملک کے شہری علاقوں میں دس گھنٹے جبکہ دیہی علاقوں میں یومیہ چودہ گھنٹے تک لوڈ شیڈنگ ہوتی ہے۔

زمان کا کہنا ہے کہ حکومت شمسی توانائی کے منصوبوں کے ساتھ ساتھ لوگوں کو توانائی کے متبادل ذرائع استعمال کرنے پر آمادہ کرنا ہوگا۔

بہاولپورکے ایک باسٹھ سالہ کسان گل محمد کا کہنا ہے کہ شمسی لالٹین استعمال کرنے کی وجہ سے اسے ماہانہ تین سو پچاس روپے کی بچت ہوجاتی ہے ، اسکی کم قیمت اور آسان دستیابی کی وجہ سے وہ صج اور شام کے وقت میں بھی آسانی کے ساتھ اپنے کھیتوں میں کام کرسکتا ہے جہاں سانپوں کی موجودگی کی وجہ سے پہلے مشکل ہوتا تھا۔ محمد کا کہنا ہے کہ وہ اب تین سے چار گھنٹے مزید کھیتوں میں آسانی کے ساتھ کام کرسکتا ہے جسکی وجہ سے اس کی آمدنی میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->