×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

پاکستانی محققین نے شمسی توانائی سے چلنے والا ٹیلی فون نیٹ ورک تیار کر لیا ہے جس کی مدد سے اب قدرتی آفت میں بھی موبائل فون کام کرے گا

by Aamir Saeed | @AamirSaeed_ | Thomson Reuters Foundation
Monday, 21 September 2015 07:14 GMT

A flood victim speaks on a mobile phone as he lies on a bed beside a partially flooded restaurant in Multan, Punjab province, Pakistan. Sept. 13, 2014. REUTER,/Zohra Bensemra

Image Caption and Rights Information

Solar-powered phone system could save lives in disasters by connecting survivors with rescue teams and officials

لاہور، پاکستان (تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن) ۔۔۔ پاکستانی محققین نے شمسی توانائی سے چلنے والا ایک ایسا ٹیلی فون نیٹ ورک تیار کرلیا ہے جو کسی بھی ایسی جگہ آسانی کے ساتھ استعمال کیا جا سکتا ہے جہاں قدرتی آفات جیسے سیلاب اور زلزلہ آنے کی صورت میں عام نیٹ ورک کام کرنا چھوڑ دیتا ہے۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے کچھ محققین نے کیلی فورنیا یونیورسٹی کی ایک ٹیم کے ساتھ ملکر ایک ریسکیو بیس سٹیشن تیار کیا ہے ،جو پاکستان میں عام موبائل فون پر کام کرنے والا کوئی بھی پہلا ایمرجینسی ٹیلی فون نیٹ ورک ہے۔ انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے وائس چانسلراور اس پراجیکٹ کے مشیر عمر سیف کا کہنا ہے کہ یہ سسٹم جب بھی کسی قدرتی آفت زدہ علاقہ میں لگایا جاتا ہے تو اس علاقہ میں موجود لوگوں کے موبائل فونز پر خود بخود اسکے سگنل آنا شروع ہو جاتے ہیں، جس سے لوگ باآسانی اس نیٹ ورک کا حصہ بن کر ٹیلی فون اور پیغام رسانی کے ساتھ ساتھ انٹرنیٹ کا استعمال بھی مفت میں کر سکتے ہیں۔

ریسکیو بیس سٹیشن وزن میں ہلکا اور ایک مستطیل نما ڈبہ ہے جس کے ساتھ ایک انٹینا اور بیٹری لگے ہوتے ہیں، اسکو آسانی کے ساتھ اٹھایا جا سکتا ہے اور ایسے علاقے جہاں ویسے پہنچنا مشکل ہو اسکو ہیلی کاپٹر کے ذریعے بھی گرایا جا سکتا ہے۔یہ شمسی توانائی کے ساتھ چلتا ہے اور ایسے علاقوں میں باآسانی کام کرتا ہے جہاں بجلی موجود نہ ہو۔

یہ ایک متبادل رابطے کا نظام ہے اور یہ آفت زدہ علاقوں میں جانیں بچانے میں کافی مددگار ہو گا ،کیونکہ زندہ بچ جانے والے لوگ امدادی کاروائیاں کرنے والے اور سرکاری افسران کے ساتھ رابطہ قائم کر سکتے ہیں۔انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کا کہنا ہے کہ وہ نیشنل ڈیزاسٹر مینیجمنٹ اتھارٹی اور ایک مقامی ٹیلی کام کمپنی کے ساتھ مل کر اگلے چھ سے آٹھ مہینوں میں اسکا باقاعدہ استعمال شروع کر دے گی۔

سیف کا کہنا ہے کہ آربی ایس کے سگنل تین کلومیٹر کے اندر اندر کام کرتے ہیں اور اس علاقہ میں موجود لوگ اپنا نام، پیشہ، عمر اور خون کا گروپ ایک دیے گئے نمبر پر بھیج کر آسانی کے ساتھ رجسٹر ہو سکتے ہیں۔ انکا کہنا ہے کہ اس سے مصیبت میں پھنسے لوگوں کا آٹومیٹنک ڈیٹا اکٹھا ہو جاتا ہے جس سے امدادی ٹیموں کو ان تک پہنچنے میں آسانی ہو تی ہے۔

سرکاری اعدادوشمار کے مطابق، پاکستان کی کل ساڑھے اٹھارہ کروڑ آبادی میں سے اس وقت گیارہ کروڑ ساٹھ لاکھ لوگ موبائل فون استعمال کر رہے ہیں۔آربی ایس سسٹم استعمال کرنے والے لوگ اپنے موبائل فون پر نظر آنے والے ایک خاص نمبر پر میسج بھیج پر اپنی مطلوبہ معلومات چند سیکنڈ میں حاصل کر سکتے ہیں، مثال کے طور پر، اگر کسی شخص کو فائر بریگیڈ سے رابطہ کرنا ہے تو وہ "پیشہ، فائر فائٹر"لکھ کر میسج کر دے تو چند سیکنڈ کے اندر اندر اس علاقہ میں موجودتمام فائر فائٹروں کے رابطہ نمبر اور نام موصول ہو جائیں گے، جنہیں وہ کال کر کے مدد کے لئے بلا سکتا ہے۔

اسی طرح اگر کسی شخص کو خون کے عطیہ کی ضرورت ہے تو وہ مطلوبہ خون کا گروپ لکھ کر میسج کرے تو چند سیکنڈ کے اندر اندر اسے اس علاقہ میں موجود اس بلڈ گروپ کے لوگوں کی تمام تفصیلات بمع رابطہ نمبر کے موصول ہو جائیں گی، جنہیں وہ عطیہ کے لئے درخواست کر سکتا ہے۔

سیف کا کہنا ہے کہ گراؤنڈ پر موجود آر بی ایس کی ٹیمیں آفت زدہ علاقہ میں موجود تمام لوگوں کے کوائف جمع کرکے امدادی ٹیموں، ڈاکٹروں اور سرکاری محکموں کو مزید مدد کے لئے پہنچانے کا کام بھی کریں گی،انفارمیشن ٹیکنالوجی یونیورسٹی کے ایک محقق اور آر بی ایس بنانے والی ٹیم کے رکن ابراہیم غزنوی کا کہنا ہے کہ اس نظام کو استعمال کرنے والے لوگوں کو موسم کی پیش گوئی اورقدرتی آفت سے متعلقہ معلومات بھی بھیجی جا سکتی ہیں تاکہ وہ اس علاقہ کو بروقت خالی کر دیں۔

غزنوی کا کہنا ہے کہ ایک آربی ایس تیار کرنے پر تقریبآچھ ہزار ڈالر خرچہ آتا ہے اور گوگل فیکلٹی ریسرچ ایوارڈ کے تعاون کے ساتھ پاکستان نے اپنا پہلا سسٹم تیار کیا ہے۔

ایک امریکی کمپنی اینڈاگا کے ساتھ ملکر آربی ایس کی ٹیم اس پراجیکٹ کو تجارتی بنیادوں پر شروع کرنے کے لئے کام کررہی ہے۔ تمام مقامی موبائل کمپنیوں کو اس سے فائدہ ہو گا کہ وہ کسی بھی ناگہانی آفت سے اپنا نیٹ ورک تباہ ہونے کی صورت میں بھی اپنا کام جاری رکھ سکیں گی۔

اقوام متحدہ کی ایک تحقیق کے مطابق ، پاکستان ایک آفت زدہ ملک ہے جسے دو ہزار پچاس تک مختلف موسمیاتی تبدیلیوں جن میں تیز بارشیں، خشک سالی اور برفانی پہاڑوں کا پگھلنا شامل ہیں سے نمٹنے کے لئے چھ ارب ڈالر سے لیکر چودہ ارب ڈالر تک درکار ہو ں گے۔

پاکستان واٹر پارٹنر شپ کے کنٹری ڈائریکٹر پرویز امیر کا کہنا ہے کہ اس طرح کی ٹیکنالوجی سے آفت زدہ علاقوں میں پھنسے لوگوں تک بروقت پیغام رسانی کے ذریعے بہت ساری جانیں بچائی جا سکتی ہیں۔

انکا کہنا ہے کہ مقامی محققین کی حوصلہ افزائی کرنی چاہیے تاکہ وہ اس طرح کے بہتر سے بہتر آلات تیار کریں، لیکن آربی ایس کے باقاعدہ استعمال شروع کرنے سے پہلے اسکوآفت زدہ علاقوں میں ٹیسٹ کرنا ضروری ہے۔امیر کا کہنا ہے کہ آربی ایس امدادی کاروائیوں میں بہت مفید ثابت ہو سکتا ہے خاص کر ان دور دراز علاقوں میں جہاں قدرتی آفات سے رابطے کا نظام اکثر درہم برہم ہو جاتا ہے۔

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->