×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

کیا مذہبی علماء و اقابرین پاکستان میں موسمیاتی تبدیلی کے خلاف جنگ میں اپنا کردار ادا کرسکتے ہیں؟

by Saleem Shaikh | @saleemzeal | Thomson Reuters Foundation
Thursday, 31 March 2016 08:20 GMT

A man says a prayer from outside the window of the shrine of Bari Imam on the outskirts of Islamabad, Pakistan, April 27, 2015. REUTERS/Caren Firouz

Image Caption and Rights Information

Religious leaders could have "unprecedented influence" in persuading people to act, a gathering of experts says

 

اسلام آباد [تھامسن رائٹرزفائونڈیشن] - موسمیاتی تبدیلی اور مذہبی رہنما اس بات پر متفق ہیں کہ اسلامی پیشوا اور سمیت تمام مذاہب کے سربراہ عوام میں موسمیاتی خطرات، ان کے اسباب اور اثرات سمیت ان سے نمٹنے کے لیے ممکنہ اقدامات کے متعلق آگاہی پیداکرکے لوگوں کو اپنے طور پر موسمیاتی تبدیلی سے نمٹنے کے لیے تیار کرسکتے ہیں۔

 

ان کا کہنا تھا کہ مذہبی پیشوں، اقابرین اور علماء کی یہ ایک اخلاقی اور مذہبی ذمیواری ہے کہ وہ پاکستان اور دنیا کے دوسرے ممالک میں لوگوں اورصنعتکاروں کو ہر سطح پر کاربن گئسوں کے اخراج اوراس کے نتیجے میں رونما ہونے والے موسمایتی خطرات سے نمٹنے کے لیےاپنے اپنے طور پر اثر کردار نبھائیں۔

 

پاکستان علماء کاونسل  کے مرکزی رہنما مولانا طاہر اشرفی نے تھامسن رائٹزز فائونڈیشن سے بات کرتے ہوئے کہا کہ اس سلسلے میں مذہبی پیشوں، اقابرین اور عالموں کو عالمی حدت کے باعث ہونے والی موسمیاتی تبدیلی اور اس کے اثرات سے نمٹنے کے لیے آگاہی دینا ہوگی۔ تاکہ وہ لوگوں سے اس اہم مسئلے پر موثر اقدامات کے لیے بات کرسکیں۔  وہ اس بات کو مانتے ہیں کہ اس سلسلے میں مذہبی پیشوں، اقابرین اور علماء کی پیغام کو لوگ نہ بلکہ سننیں گے بلکہ اس پر عمل بھی کرسکتیں ہیں۔

 

ان کا کہنا ہے، "ہم ضرور موسمیاتی تبدیلی جیسے موضوع پر اپنے خطبات کے دوران بات کرسکتے ہیں، تاہم اس کے لیے اس اہم عالمی مسئلے پر ہماری آگاہی میں اضآفہ ناگزیر ہے۔"

 

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں ایک اہم کانفرنس کے شرکاء سے مخاطب ہوتے ہوئے امریکی ریاست مائنی سوٹا میں واقع لوتھر مدرسے کے چارلس امجد نے خبردار کیا کہ موسمیاتی تبدیلی کے خلاف ایکشن کے لیے صرف سیاسی اور غیرسرکاری تنظیموں پر انحصار ایک غلط اور ناکام کوشش ہے۔ 

 

انہوں نے زور دیکر کہا کہ اس سلسلے میں ہمیں کسی بھی طور پر مذہبی پیشوں، اقابرین اور علماء کو نظر انداز نہیں کرسکتے۔ کیونکہ کہ لوگ سب سے زیادہ ان کی بات کوسسنتے ہیں۔ اور اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔ ہمیں لوگوں کے موسمیاتی تبدیلی کے مطعلق لوگوں کی رائے کوتعمیر کرنے کے لیے مذہبوں کی طاقت کو استعمال کرنا چاہیے۔ تاہم انہوں نے مشورہ دیا کہ ان موسمیاتی تبدیلی کے مختلف پہلووں، اسسباب اور اثرات اور ممکنہ حل پر مساجد، گرجاگھروں، مندروں جیسے مذھبی مقامت میں بات کرنے کے لیے  مذہبی علماء کوآمادہ کرنا ہوگا۔

 

امجد نے مثال دیکر کہا کہ  مذہبی علماء لوگوں کو اس بات پر باآسانی آمادہ کرسکتے ہیں کہ وہ اپنی اپنی زندگی کوماحول دوست طریقوں کے اصولوں کی روشنی میں گذاریں اور بجلی اور پانی کے ضیاع پر قابو پانے اور گھر میں توانائی کے کم استعمال سے چلنے والے الیکٹرک آلات کے استعمال اور سائیکل کے استعمال کو ترجیح دیں۔ 

 

ورلڈ کائونسل آف رلیجنس کے وائس چئرمین بشاپ سموئل اذرییاح نے کہا کہ اس سلسلے میں مذہبی علماء انبیاء علیہہ سلام کی زندگیوں سے اسباق کو مزید اجاگر کریسکتے ہیں، کیوں کہ تمام انبیاء نے قدرتی نعمتوں کے بے دریغ استعمال سے منع فرمایا ہے۔ 

 

انہوں نہ کہا کہ چاہے وہ قرآن شریف ہو یا گیتا، توریت یا انجیل ہو اس کے ذریعے اللہ تعالی نے اپنے بندوں سے اپنی نعمتوں کے صحیح استعمال کے لیے باربار کہا ہے۔ 

 

انہوں نے اس بات پر افسوس کیا کہ مگر انسانوں کی خدا کی اس پیغام کو نظرانداز کیا اور آج انسان خسارے میں ہے۔ اور موسمیاتی تبدیلی جیسے خطرے سے آج دوچار ہے۔ 

 

نارویجن چرچ ائیڈ کی کلائمیٹ چینج جسٹس اور انرجی ائڈوائزر، انرد نئیس ہوم نے کہا کہ موسمیاتی تبدیلی پر عوامی شعور بیدار کرنے کے لیے ہمیں  مذہبی علماء کا سہارا لینا ہوگا۔ اور یہ کلائمیٹ ایکشن کے لیے ناگذیر ہے۔

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->