×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

پاکستان کے پہلے کلین ڈوولپمنٹ مکینزم منصوبے سے پن بجلی کی ترقی کی امید بحال

by Roshan Din Shad | Thomson Reuters Foundation
Wednesday, 15 May 2013 11:00 GMT

As Pakistan-controlled Kashmir struggles to meet rising energy demand, hydropower may prove the answer – though disputes remain with India about control of the region’s rivers

بونگ ، پاکستان - (تھامسن رائٹرز فاونڈیشن) - پاکستان نے اقوام متحدہ کے کلین ڈوولپمنٹ مکینزم کے تحت پہلے کلین ڈوولپمنٹ مکینزم منصوبےکو کامیابی سے مکمل کر لیا گیا ہے، جس سے حکومت کو امید ہے کہ یہ منصوبہ پن بجلی کی قلت میں کمی لانے کے لئے بیرونی سرمایہ کاری کو راغب کرے گا۔
84میگا واٹ کا یہ منصوبہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر ،جسے آزاد جموں و کشمیر بھی کہاجاتاہے، کے ضلع میر پور میں شروع کیا گیا ہے جو اسلام آباد سے 63میل کے فاصلے پر شمال مشرق میں واقع ہے۔
دریائی بہاؤ سے چلنے والے اس منصوبے کا آدھا پانی میں ڈوبا پاورھاوئس ٹربائن کے چار جوڑوں اور ایک جنریٹر پر مشتمل ہے اور ڈیم کے بغیر ہے۔یہ1967میں تعمیر کیے گیے 1000 میگا واٹ بجلی پیدا کرنے والے منگلہ ڈیم سے تقریبا 5 میل نیچے واقع ہے۔
ایشین اور اسلامک ڈوپلمنٹ بئنک کے باہمی مالی اشتراک سے مکمل ہونے والا یہ منصوبہ ملک کا پہلا پن بجلی منصوبہ ہے جو جنوری2009 میں اقوام متحدہ کے فریم ورک کنونشن برائے تبدیلی آب و ہوا (یو این ایف سی سی )کے پاس بطور کلین ڈوولپمنٹ مکینزم منصوبہ رجسٹرڈ کیا گیا ۔اس سال مارچ میں مکمل ہونے کے بعد اس منصبوے نے پیداوار شروع کر نے والے اس منصوبے پر21کروڑر 70لاکھ ڈالر کی لاگت آئی۔
منصوبے کی تعمیر کرنے والی کمپنی لاریب انرجی کے مطابق، منصوبے کی تعمیر سے کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کے اخراج میں سالانہ دو لاکھ انیس ہزار ٹن کی کمی لانے میں مدد ہوگی جو اس کے برابر بجلی پیداکرنے کے لیے معدنی تیل سے پیداہونی تھی۔
مقامی لوگوں کی شکایات
منصوبے کے اردگرد آباد لوگ کو شکایت ہے کہ اس منصوبے سے انہیں کوئی معاشی فائدہ نہیں ہواہے؛ بلکہ علاقے کا قدرتی ماحول پہلے سے زیادہ خراب ہو گیا ہے۔
منصوبے کے قریبی گاؤں لڑی چودہدریاں کے 42سالہ طاہر چوہدری نے دعوہ کیا ہےکہ اس منصوبے کی تعمیر کے دوران مقامی لوگوں کو روزگار نہیں دیا گیا اور اُلٹا روزگار کامطالبہ کرنے پر کمپنی کے اہلکاروں نے دھمکیاں دی ہیں۔
مقامی لوگ کہتے ہیں کہ منگلہ ڈٰیم سی خارج ہو کر نیچے آنے والا دریاانکے گاؤں کے کونے سے گزرتے ہوئے سیوریج کو بہا لے جاتا تھا جس کو اس منصوبے کی خاطر موڑنے سے دریا خشک ہو کر رہ گیا ہے۔
گاؤں کے ایک مکین ظہور احمد بتاتے ہیں کہ پہلے20سے 30فیٹ پر زیر زمین پانی موجود تھالیکن دریا کے موڑنے کے بعد واٹر ٹیبل گرنے سے چشمے خشک ہوگئے ہیں۔
۵۰سالہ راجہ نعیم جو منصوبے کے قریب ہی ایک چھوٹا سا ھوٹل چلاتے ہیں ،کہتے ہیں کہ ہمیں اس منصوبے سے کوئی فائدہ نہیں ہے نہ اس سے روزگارملااور نہ ہی بجلی۔
حکومت پاکستان کے توانائی کے ادارے واپڈا اور لاریب انرجی کے درمیان ہونے والے معائدے کے تحت اس منصوبے سے پیداہونے والی بجلی نیشنل گرڈ کو مہیا کی جارہی ہے۔
نیو بونگ پن بجلی منصوبے کو میرپور کے بقیہ علاقے سے ملانے والے پل کے قریب 25 سالہ مشروبات فروش محمد زبیر نے بتایا کہ منصوبے کی تعمیر کے لیے افرادی قوت ملعقہ صوبے پنجاب سے لائی گئی اور مقامی افراد کو یکسر نذرانداز کیا گیا۔
منصوبے کے حکام کہتے ہیں کہ مقامی سطح پر مطلوبہ معیارحاصل نہ ہونے کی وجہ سے باہر سے کام کرنے والوں کو لایا گیا۔
چیئرمین لاریب انرجی حاجی عزیز کہتے ہیں کہ ہمیں منصوبے کے لیے فنی مہارت کے حامل افراد کی ضرورت تھی جو مقامی سطح پر دستاب نہ ہونے کی وجہ سے باہر سے لوگ تعینات کرنا پڑے تھے۔ تاہم انکے مطابق، منصوبے میں مقامی لوگوں کے لیے اس منصوبے میں اور کئی فوائد ہیں۔
حاجی عزیز کا کہنا ہے کہ بجلی پیدا کرنے کے لیے دریاکا بہاؤ موڑنے سے لڑی چوہدریاں گاؤ ں سیلاب سے محفوظ ہو گیا ہے اور نہر کوگہرہ کرنے سے سیلاب کی نذر ہونے والا 4500 ایکٹر بنجر رقبہ قابل کاشت ہوگیا ہے۔
توانائی کی بڑھتی ہوئی مانگ
بجلی کی وسیع گنجائش سے کسی کو انکار نہیں .گزشتہ ماہ پاکستان کے زیرانتظام کشمیر کے دارلحکومت مظفرآباد بجلی کی طویل دورانیے تک بندش کے خلاف پرتشدد مظاہرے ہوئے جن میں 45پولیس اہلکاروں سمیت کئی افراد زخمی ہوئے۔
گزشتہ سال گرمیوں کے موسم میں پاکستان کے صوبے پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں جہاں بعض علاقوں میں درجہ حرارت52ڈگری سینٹی گریڈ تک پہنچ گیا تھا، اس دوران بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ نے زندگی اجیرن بنا دی تھی جس کے خلا ف اسی طرح کا پرتشدد احتجاج کیے گئے ۔
وفاقی وزارت برائےپانی و توانائی کے مطابق، گذشتہ سال مئی میں بجلی کی طلب 16800 میگاواٹ تھی اور اُس کی رسد 10800 میگاواٹ تھی۔ اس سال مئی اور آگست کے درمیان بھی 6000 میگاواٹ سے زائد کی کمی کی پیشن گوئی کردی گئی ہے۔
پانی وبجلی کے وفاقی ادارے واپڈا کے مطابق، ملک میں دو تہائی بجلی تیل سے اور ایک تہائی پانی سے حاصل کی جا رہی ہے۔ آئندہ سات برسوں کے دوران کشمیر سے بہنے والے دریاؤں سے 3600
میگاواٹ حاصل کرنے کے لیے آٹھ منصوبے مرتب کیے گئے ہیں۔ مالی وسائل کی دستیابی کی صورت میں یہ منصوبے 2020 تک مکمل ہونگے۔
150میگا واٹ پن بجلی منصوبے کی تعمیر میں مصروف کورین کمپنی سٹار ھائیڈرو کے چیف ایگزکٹو وقاراحمد کاخیال ہے کہ پاکستان کی موجودہ کمزور معاشی حالت اور امن وامان کی خراب صورت حال کی وجہ سے بیرونی سرمایہ کاری ملک میں لانا کافی مشکل ہے۔
علاقائی ھائیڈرو الیکٹرک بورڈ کے نائب ناظم منصوبہ بندی فرید احمد کہتے ہیں کہ اس علاقے میں8100میگا واٹ پن بجلی بنانے کی نشاندہی کی گئی ہے، جس میں سے اب تک ۱یک ہزار میگا واٹ سے استفادہ کیا جارہا ہے اورآئندہ چار سالوں میں مزید1200میگا واٹ بجلی حاصل کرنے کے لیے دس منصوبوں پر کام جارہی ہے۔
پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم چوہدری عبدالمجید کہتے ہیں کہ معدنی تیل کے کم ہوتے ہوئے زخائر کے پیش نظر کارخانوں اور گھریلو استعمال کے لیے بجلی پیدا کرنے کے لیے ہمارے علاقے میں صرف ایک متبادل زریعہ پن بجلی ہے اور اُس کے لیے یہ علاقہ بے حد مناسب ہے۔ 
آبی تنازعات
لیکن پاکستان اپنے ہمسائے ملک انڈیا کے ساتھ کشمیر کے پانیوں پر تنازعہ کا شکار ہے اور حال ہی میں اس نے انڈیا کے زیر انتظام کشمیر سے پاکستان کے آزاد کشمیر بہہ کر آنے ولے دریائے نیلم کے پانی کے پہلے استعمال کا حق حاصل کرنے کے لیے عالمی ثالثی عدالت سے رجوع کیا۔
پاکستان دریائے نیلم پر حالیہ برسوں کا سب سے بڑا 969میگا واٹ پن بجلی منصوبہ تعمیر کر رہاہے۔جو 2016تک مکمل ہوگا جبکہ انڈیابھی اپنے زیر کشمیراسی دریا پر 360میگا واٹ کے پن بجلی منصوبے کی تعمیر میں مصروف کار ہے۔
بڑے منصوبوں کی تعمیر کی افادیت اپنی جگہ ،مگر کچھ لوگوں کایہ خیال ہے کہ چھوٹے منصوبوں کی تعمیر سے ان لوگوں کو زیادہ فوائد حاصل ہو سکتے ہیں جو انکے قریب رہتے ہیں ۔
معاشیات کی تدریس سے منسلک 35سالہ فیصل شال، جو پن بجلی کے ایک چھوٹے منصوبے کے قریب واقع چناری گاؤں میں رہتے ہیں، کا کہنا ہے کہ اس طرح کے چھوٹے منصوبے دیہی علاقوں کے لیے بہت فائدہ مند ہیں کیونکہ ان سے روزگار کے مواقع اور معاشی سرگرمی پیداہونے کے علاوہ سب سے بڑکر قریبی دیہات کو دن رات بجلی مہیا رہتی ہے۔
اس طرح کے لگ بھگ ایک درجن ھائڈل اسٹیشن آزادکشمیر کی وادی نیلم،جہلم اور لیپہ کے ندی نالوں پر کام کر رہے ہیں۔ان میں 3.2میگاواٹ کٹھائی ھائیڈرواسٹیشن1995میں تعمیر کیا گیا، جس سے قرب وجوار کے 60دیہات کو بجلی مہیا کی جا تی ہے جس سے ضلع ھٹیاں بالا کی ڈیڑھ لاکھ آبادی مستفید ہو رہی ہے

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->