×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

کشمیر میں آٹو رکشہ ڈرائیورں نے ماحول دوست اور کفایتی رکشے اختیار کر لیے

by Roshan Din Shad | Thomson Reuters Foundation
Tuesday, 14 January 2014 10:00 GMT

Auto rickshaws - a major form of transportation in Pakistan and India - wait for passengers in Muzaffarabad, the capital of Pakistan-controlled Kashmir. THOMSON REUTERS FOUNDATION/Roshan Din Shad

Image Caption and Rights Information

More efficient auto rickshaws are starting to replace their noisy, polluting two-stroke predecessors in hazy Muzaffarabad, in Pakistan-controlled Kashmir

مظفرآباد :پاکستان (تھامسن رائٹرزفائونڈیشن) مظفرآباد کے ایک سیلز سنٹر میں اپنے نئے تین پہییوں والے رکشے کے قریب بیٹھا عبدالرشید چھ ما ہ بیمار رہنے کے بعد دوبارہ روزی کمانے کے لیے تیارہے ۔

 

لیکن رشید کی گاڑی کی صرف باڈی ہی نئی نہیں ہے بلکہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے دارالحکومت مظفرآباد میں چلنے والے چار ہزار کے لگ بھگ پرانے رکشوں کے برعکس اُن کا انجن چار سٹروک ہے

 

اُنتالیس سالہ رشید کے لیے پرانے دوسٹروک رکشے کے برعکس چار سٹروک رکشے میں معاشی اور ماحولیاتی فوائد ہیں

 

نئے چار سٹروک رکشے پرانے دو سٹروک کی نسبت بیس فیصد کم پیٹرول خرچ کرنا رشید کو کم ایندھن پر زیادہ سواریاں اُٹھانے کے قابل بنا تا ہے، جس میں وہ روزانہ تین سو پاکستانی روپے کا ایندھن ڈالتا ہے پر بارہ سو کماتا ہے۔ رشید پُراعتماد ہے کہ وہ نئے رکشے کی قیمت ایک لاکھ چھہتر ہزار روپے(1700$) ایک سال میں پورے کر لے گا۔

 

رشید کہتا ہے کہ یہ چار سٹروک انجن کی وجہ سے تیز، دونھوے اور شو ر سے پا ک اور چلانے میں آسان ہے، او آرام دہ ہونے کی وجہ سے سواریا ں اس پر بیٹھنا پسند کر تی ہیں۔

 

ُٓپانچ بچوں کے باپ رشید کو دوسال قبل شہر میں سب سے پہلا چار سٹروک رکشہ راولپنڈی سے مظفرآباد لانے پر فخر ہے، جو اُسے اٹھارہ ما بعد جلد کی الرجی ہو جانے کے باعث کام نہ کر سکنے کی وجہ سے بیچنا پڑا تھا۔

 

آٹو رکشہ کم فاصلہ طے کر نے کے لیے سستی سواری تصور کیا جا تا ہے اور پاکستان کے ہر شہر اور قصبے میں پائے جاتے ہیں۔

 

لاہور میں بننے والے چارسٹروک انجن والے اس رکشے نے پہاڑوں سے ڈھکے مظفرآباد ،جس کی فضاء دھوائے اور مٹی سے پُر ہے اس کی سڑکوں پر چلنے والے نصف صدی پرانے دو سٹروک رکشے کی جگہ لینا شروع کر دی ہیں۔

 

ڈاکٹرز اور ماہرین ماحولیات کا کہنا ہے کہ پرانے رکشے مظفرآباد کی فضاء میں موجود ٹریفک کے دونھو ے کا سب سے بڑا زریعہ ہیں کیونکہ ٹو سٹروک انجن ایندھن کو صیح نہیں جلا سکتا ۔ تعمیرا ت کے باعث اُٹھنے والی مٹی کے ساتھ ملکر یہ دونھوا کئی بیماریوں اور الرجیوں کا سبب بنتا ہے ۔

پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے وزیر اعظم سیکٹریٹ کے جنرل فزشن احمد جنید کہتے ہیں کہ ٹریفک کا دھواں خصوصی طور پر اُن افراد کے لیے نقصان دہ ہے جو سانس کی نالیوں کی بیماری میں مبتلا ہیں۔

 

اگرچہ نئے رکشے بالکل دھوائے اور شور سے پا ک نہیں لیکن ماہریں ماحول شفیق عباسی کے مطابق فور سٹروک رکشے نسبتا ماحول دوست ہیں اور شہر میں ٹریفک کا دھواں کم کر نے کے لیے انھیں عام کر نے کی ضرورت ہے- 

 

بڑھتی ہوئی فروخت:

 

پاکستان میں تین پہیوں والے رکشہ بنانے والی سب سے بڑی کمپنی ساز گار انجینئرنگ ورکس لمٹیڈ کے سیلز منجیر سید عتیق شاہ کہتے ہیں کہ اس معیاری رکشے کی سیلز آہستہ آہستہ بڑ رہی ہے۔

 

شاہ کے مطابق مظفرآباد میں اس وقت چار ہزرا کے قریب دو سٹروک کے مقابلے میں ڈیڑھ سو چار سٹروک رکشے ہیں، لیکن گزشتہ ایک ماہ میں ساز گا ر جو کہ مظفرآباد میں واحد رکشہ ڈیلر ہے روزانہ پانچ رکشے فروخت کر رہی ہے۔ جبکہ اُس کے برعکس مالی سا ۲۰۱۲-۱۳ میں صرف بیس رکشے فروخت ہوئے تھے۔

 

لوگوں کی طرف سے نیا (2014) ماڈل بہت پسند کیا جا رہا ہے۔ کیونکہ کمپنی نے اس میں علاقے کی ضرورت کے مطابق کئی تبدیلیاں متعارف کرائی ہیں۔

 

چارسٹروک رکشے کا ایک اور اضافی ماحولیاتی فائدہ یہ ہے کہ یہ پیٹرول کے علاوہ سی این جی اور ایل پی جی پر بھی چلایا جا سکتا ہے جبکہ ٹو سٹروک صرف پیٹرول پر چلتا ہے۔

 

چونکہ مظفرآباد میں سی این جی اور ایل پی جی گیس دستیاب نہیں ہے اس لیے تما م رکشے پیٹرول پر چلائے جا تے ہیں، پاکستان میں رکشے صاف ایندھن یعنی گیس پر ہی چلائے جا تے ہیں ۔

 

سازگا ر کے مکینکل سپر وائزر محمد عظیم کہتے ہیں کہ کراچی لاہور سمیت پاکستان کے دوسرے شہروں میں ہمارے رکشے کی طلب بڑھ رہی ہے 

عظیم کہتے ہیں کہ انکی کمپنی ہر ماہ 1400 رکشے صرف کراچی بھج رہی ہے۔  کراچی 18 ملین آبادی والا پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے، جس میں ایک اندازے کے مطابق پاکستان کے کئی چھوٹے شہر سے زیادہ ایک لاکھ اسی ہزار رکشے ہیں۔  کراچی میں سی این جی کی عمومی دستیابی کی وجہ سے چار سٹروک رکشوں نے وسیع پیمانے پر ٹو سٹروک کی جگہ لے لی ہے۔

 

کرا چی کے ایک سابق رکشہ مالک محمد الطاف نے بتایا کہ کراچی میں رکشہ ڈرائیور پانچ ہزا ر روپے نقد ادا کر کے قسطوں پر چارسٹروک رکشے خرید رہے ہیں۔

 

مظفرآباد کے ایک رکشہ اسٹینڈ کے قریب دوکان کھڑے باون سالہ اختر حسین اُمید ظاہر کر تے ہیں کہ حکومت آلودگی اور شورکم ک نے کے لیے ٹو سٹروک رکشہ چلانے والوں کو چار سٹروک کے ساتھ بدلنے میں معاونت کر ے گی۔

 

وہ کہتے ہیں کہ پرا نا رکشہ صر ف تنگ سیٹوں کی وجہ سے سواری اور چلانے والے کے لیے اچھا نہیں، بلکہ اس کا شور اور ھواں اس کی بڑی وجہ ہے۔

 

ٹو سٹروک رکشہ چلانے والے چالیس سالہ محمد گلزار کہتے ہیں وہ فور سٹروک خرید نے کے لیے تیا ر ہیں اگر حکومت اس کی قیمت میں رعایت دے۔

 

پانچ بچوں کے باپ گلزار رکشہ اسٹینڈ پر سواریوں کی انتظار میں کھڑے ہیں- وہ کہتے ہیں کہ سواری اس پر سفر کو ترجیح دیتی ہے لیکن اس کی قیمت زیادہ ہے ۔

 

پاکستانی کشمیر کے وزیر ٹرانسپورٹ طاہر کھوکھر کہتے ہیں کہ تین ہزار دو سٹروک رکشہ مالکان کو قسطوں پر چار سٹروک رکشے خرید نے کے لیے مقامی بنک سے قرضے کی فراہمی پر سود کی ادائیگی کے لیے وفاقی حکومت کو ایک سکیم منظوری کے لیے بھجی گئی ہے۔

 

اسی دوران پاکستان نے بنگلہ دیش، مصر، جاپان، کینیا، نائجیریا، سری لنکا اور یوگینڈا کو بھیفور سٹروک رکشے کی برآمد شروع کر دی ہے۔

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->