×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

پاکستان کی فلڈ مئنجمنٹ پلاننگ پر سوالات

by Saleem Shaikh and Sughra Tunio | @saleemzeal | Thomson Reuters Foundation
Wednesday, 10 September 2014 08:30 GMT

A couple wades through a flooded road after heavy rains in Lahore, Pakistan, on September 4, 2014. REUTERS/Mohsin Raza

Image Caption and Rights Information

Civil authorities say they lack funds to respond, as Army steps in

 

جہلم، پاکستان [تھامسن رائٹرزفائونڈیشن] - پنجاب میں ستمبر کے پہلے ہفتے میں سیلاب آنے کے چاردن بعد صوبے کے وزیر اعلی نے اپنی حکومت اور محکموں کے اعلی سربراھن کی میٹنگ بلائی اور ان سے کہا کہ اس سیلابی تباہی سے نمٹنے کے لیے ہر ممکن اقدامات اٹھائیں۔

 

تب تک پاکستان آرمی نے پہلے ہی فلڈ ریسکیو اور رلیف آپریشن شروع کردیا تھا، جس کے تحت سولہ ہیلی کاپٹرس اور ۳۰۰ موٹربوٹ کے ساتھ کئی ہیوی گاڑیاں کام کررہیں تھیں۔

 

پاکستان کی میڈیا ونگ انٹر سروسز پبلک رلیشنس یعنی آئی-ایس-پی-آر کے مطابق، ۱۰ ستمبر تک ۶۵۰۰ سے زیادہ سیلاب میں پھنسے لوگوں کے نکالا گیا ہے۔

 

پنجاب صوبے کے شمال میں واقع جہلم کے ایک سیلاب سے متاثر گاوں رہائش پذیر میں ذولفقار علی ان لوگوں میں سے ایک جن کو سیلاب سے نکال کر محفوظ جگہ منتقل کیا گیا ہے۔

 

ان کا کہنا ہے، "اپنے خاندان کے ساتھ ہم اب تک مر چُکے ہوتے اگر پاکستان آرمی کا ہیلی کاپٹر ہماری مدد کو نہیں پہنچتا۔ ہم نے ایسا تباہ کن سیلاب ۲۰۱۰ کے سیلاب کے بعد پہلی مرتبہ دیکھا ہے۔ پاکستان آرمی کے جوانوں نے ہمیں اس وقت دیکھا جب ہم اپنے گھر کی چھت پر مدد کے لیے کھڑے تھے اور ہمارہ گھر سیلابی پانی سے گھیرا ہواتھا۔

 

پاکستان کی نیشنل ڈزاسٹر مئنجمینٹ اتھارٹی کے مطابق، پینجاب، گلگت بلتستان اورآزاد کشمیر شدید بارشیں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے فلیش فلڈس سے اب تک تقریبا ۲۶۴ فوت، ۵۰۰ سے زیادہ زخمی اور ۱۰ لاکھہ سے زیادہ لوگ متاثر ہوئے ہیں۔

 

ان سیلابوں سے یہ بات مایوس کن ثابت ہوئی ہے کہ پاکستان میں حکومت کے صوبائی اور شہری ادارے کس طرح ان سیلابوں اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والی تباہی سے نمنٹنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہیں۔

 

تقریباً تمام سیلاب زدہ علاقوں میں سرکاری ادارے لوگوں کو ریسکیو کرنے اور ان کو رلیف دینے میں مکمل اور بری طرح ناکام رہیں ہیں، جس کی اہم وجہ فنڈز کی عدم دستیابی اور نا اہلیت بتائی جاتی ہے۔

 

ہم نے کسی کو مدد کے لیے نہیں دیکھا

 

جہلم ضلع کےپنتالیس سالہ کسان علی کہتے ہیں کہ ہم جب سیلاب میں پھنسے ہوئے تھے اس وقت ہمیں بچانے کے لیے سول گورنمنٹ کے طرف سے کوئی نظر نہیں آیا تھا سوائے پاکستان ملٹری کے نوجوان جو ہماری طرف مدد کے لیے آئے۔

 

پاکستان میٹرولاجیکل ڈپارٹمنٹ کے مطابق، ستمبر کو جہلم ضلع میں تقریباً ۱۳۵ ملی میٹر یعنے ۳۔۵ انچ بارش ہوئی تھی۔

 

چوون سالہ مصطفی پنجاب صوبے کے شمال مشرق کے ضلع سیالکوٹ میں فلارمل کے مالک ہیں۔ انہوں نے کہا کہ چھہ ستمبر کو ۲۰۷ ملی میٹر بارش ہوئی تھی اور محکمہ آبپاشی، پانی اور سینیٹیشن سے کوئی مدد کے لیے نہیں پہنچا تھا۔ اور جب وہ آتے ہیں تب تک کافی دیر ہوچکی ہوتی ہے۔

 

سسٹین ایبل ڈوولپمنٹ پالیسی انسٹیٹیوٹ کے ماہر پانی وبجلی  ارشد عباسی کہتے ہیں کہ ۲۰۱۰ سے لیکے اب تک ورلڈ بئنک اور ایشین ڈوولپمنٹ بئنک نے پاکستان کو سیلابوں سے نمٹنے کے لیے تقریبا ۴۰۰ بلین روپے دیے ہیں۔ مگر افسوس ہے کہ ان فنڈنگ کا کوئی نتیجہ نظر نہیں آرہا اور پاکستان اس سال بھی سیلاب سے متاثر ہواہے۔

 

عباسی کہتے ہیں کہ سیلاب دنیا بھر میں آتے ہیں مگر ان سے ہونے والے نقصانات کو کم کیا جاسکتا ہے جو پاکستان میں ہوتے ہوئے نظر نہیں آرہا، جس کی اہم وجوہات کرپشن، مسمئنجمنٹ، پولیٹیکل ول کی کمی اور ٹیکنیکل ماہرین کی کمی ہے۔

 

فنڈز کی عدم دستیابی

 

سرکاری افسران کے مطابق، فیڈز کا وقت پر رلیز نہ ہونے کی وجہ سے یہ ان سیلابوں سے ہونے والے نقصانات سے نمٹنا بہت مشکل ہے اور سیلابی موسم سے پہلے ڈرینج اورسیوریج نظام کی دیکھہ بھال اور صفائی کرنا تقریباً نممکن ہوتا ہے۔

 

پنجاب صوبے کی پبلک اکائونٹس کمیٹی کے چئرمین محمود رحمان راشد کہتے ہیں کہ فنڈز رلیز کیے جاتے ہیں مگر ان کا صاف و شفاف استعمال نہیں کیا جاتا جس کی وجہ سے ہر سال سیلابی موسم کے دوران شہروں میں ندی نالے بند ہونے کی وجہ سے سیلابی پانی کھڑا رہ جاتا ہے۔

 

راشد کہتے ہیں کہ یہ باعث تشویش ہے کہ لاہور ڈوولپمنٹ اتھارٹی کو ۲۰۱۳ میں ۲۵ بلین روپے جاری کیے گئے تھے اور اتنے ہی اس سال جاری کیے گئے ہیں مگر یہ اتھارٹی اپنے حصے کا کام کرنے میں ناکام رہی ہے۔

 

لاہور کی واٹر ائنڈ سینیٹیشن ایجنسی کے چئرمین نصیر احمد کہتے ہیں کہ انے کے ادارے کو وقت پر بجٹ رلیز نہیں کی جاتی جس کی وجہ سے واٹر اور سینیٹیشن کے نظام کو بہتر حالت میں رکھنا انے کے ادارے کے لیے بہت مشکل ہوگیا ہے۔ اگر فنڈز وقت پر جاری ہوں تو کام بھی وقت پر ہوسکتا ہے۔

 

نصیر احمد کہتے ہیں کہ پنجاب کے بیشتر شہر کے سول انتظامیا کے پاس ۸۰ ملیمیٹر بارش کے اثرات سے نمٹنے کی کیپیسیٹی نہیں ہے۔ جب کہ ستمبر کے پہلے ہفتے کو دوران ۵۱۸ ملی میٹر بارش ہوئی تھی جس سے شہری سیلاب کی صورتحال پیدا ہوگئی۔

 

سلیم شیخ اور صغرا تنیو اسلام آباد میں نمائندگان برائے موسمیاتی تبدیلی ہیں۔ 

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->