The aim is to boost local production, but quality issues are a roadblock, officials say
اسلام آباد، پاکستان ( تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن) - ایک ایسے وقت میں جب دنیا کے بیشتر ممالک صاف توانائی کو فروغ دینے کے لیے مالی مراعات دے رہے ہیں، پاکستان نے شمسی توانائی کے پینلز کی درآمد پر ۳۲۔۵ فیصد ٹیکس لگا دیا ہے، جبکہ ماہرین کا کہنا ہے کہ ایسے اقدامات سے ملک میں شمشی توانائی کی طلب متاثر ہو گی۔
سرکاری افسران کا کہنا ہے کہ شمسی پینلز پر ٹیکس مقامی صنعت کو فروغ دینے کے لیئے لگایا گیا ہے، جبکہ ملک کے متبادل توانائی ترقی بورڈ نے حکومت سے سفارش کی ہے کہ ملک میں شمسی توانائی کے استعمال کو بڑھانے اوربجلی سے محروم علاقوں کو بجلی مہیا کرنے کے لیے اس ٹیکس کو ختم کیا جائے۔
اسجد امتیازعلی، جو متبادل توانائی ترقی بورڈ کے چیف ایگزیکٹو افسر ہیں، کا کہنا ہے کہ شمسی پینلز پر ٹیکس لگانا حکومت کی طرف سے ایک غلطی ہے اور وہ پرامید ہیں کہ اسے جلد ہی درست کر دیا جائے گا۔ "ٹیکس غیر مناسب ہیں اور شمسی توانائی کے فروغ میں رکاوٹ کا سبب بنیں گے۔"
انہوں نے یہ بھی پیشگوئی کی کہ ان ٹیکسوں سے شمسی پینلز کی قیمتوں میں بھی۳۵فیصد تک اضافہ ہو جائے گا۔
علی کا کہنا ہے کہ ابھی پاکستان میں دو کمپنیاں ہیں ، اختر سولر لمٹیڈ اور ٹیسلہ سولر لمٹیڈ، جو ملک کی مجموعی طلب کا پانچ فیصد پورا کررہی ہیں، جبکہ باقی کی طلب درآمد سے پوری ہوتی ہے۔انکا یہ بھی کہنا ہے کہ مقامی شمسی پیداوار بڑھانے کے لئے مقامی طور پر تیار کیے جانے والے آلات کے معیار پر بھی منحصر ہے۔
صارفین کے تحفظ کیلئے، متبادل توانائی ترقی بورڈ نے حکومت کو سفارش کی ہے کہ شمسی پینلز کے معیار کو یقینی بنانے کے لئے ایسے اقدامات اٹھائے جائیں جس سے انکی گارنٹی کو 20سے 25سال کیلئے یقینی بنایا جا سکے۔ اگر مقامی صنعت کار ان معیارات کو یقینی بنائیں تو پھر حکومت بھی ان کی پیداوار بڑھانے کیلئے ان کو مراعات دے سکتی ہے، اور ایسا کرنے سے ملک میں متبادل توانائی کے ذرائع کو فروغ دینے کے ساتھہ ساتھہ لوگوں کے لئے ملازمتوں کے مواقع بھی پیدا کرنے میں مدد ملے گی۔
تاہم علی نے تجویز دی کہ، "کومت کو اس وقت تک شمسی پینلز کی درآمد پر کوئی ٹیکس نہیں لگا نا چاہیئے جب تک مقامی پیداوار سے ۷۰ سے ۸۰ فیصد تک نہیں پہنچ جاتی۔ "شمسی پینلز پر لگائے جانے والے ٹیکس نے پاکستان میں اس تجارت کو نقصان پہنچایا ہے۔"
نعمان خان جو گریس سولر پاکستان کے چیف ایگزیکٹو افسر اور درآمدکندگان ہیں ان کا کہنا ہے کہ حکومت نے ان کے کروڑوں روپے کی تجارت کو داؤ پر لگا دیا ہے۔ "ہم یقینی طور پر اس ٹیکس کو اپنے گاہکوں پر منتقل کریں گے۔"
انکا یہ بھی کہنا تھا کہ شمسی آلات پر ٹیکس لگنے سے لوگ شمسی توانائی کے استعمال کو ترک کر سکتے ہیں۔ پاکستان کے تاجر شمسی توانائی کے آلات امریکہ، جرمنی، جاپان، برطانیہ اور چائنہ سے منگواتے ہیں۔
کچھ شمسی آلات درآمد کرنے والے تاجران کا کہنا ہے کہ وہ ابھی بھی کراچی بندرگاہ سے اپنا سامان ٹیکس ادا کیے بغیر لے کر جانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ نعمان خان کا کہنا ہے کہ انکے شمسی آلات کے ۶۵کنٹینرز ابھی بھی بندرگاہ پر پھنسے ہوئے ہیں کیونکہ حکومت انکو ٹیکس پر چھوٹ دینے کے لئے تیار نہیں ہے۔انکا یہ بھی کہنا تھا کہ یہ صرف انکا مسئلہ نہیں ہے بلکہ اس سے حکومت کو بھی ملک سے لوڈ شیڈنگ ختم کرنے میں مدد ملے گی۔
سرکاری افسران کا کہنا ہے کہ پاکستان کو اس وقت بدترین لوڈشیڈنگ کا سامنا ہے کیونکہ شہری علاقوں میں اس وقت آٹھ گھنٹے لوڈشیڈنگ ہو رہی ہے جبکہ دیہی علاقوں میں گیارہ گھنٹوں سے زائدبجلی نہیں ہوتی۔
ملک میں شمسی توانائی کو فروغ دینے کیلئے جنرل پرویز مشرف نے ۲۰۰۶میں شمسی آلات کو کسی بھی ٹیکس سے مثتسناء قرار دیا تھا۔انٹرنیشنل انرجی ایجنسی کی ۲۰۱۱ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ۳۸فیصد آبادی اس وقت بجلی کی سہولت سے محروم ہے۔
ماحولیاتی تبدیلی کے ایک ماہر قمرالزمان کا کہنا ہے کہ حکومت کواس ٹیکس پر نظرثانی کرنی چاہیے کیونکہ اس سے ملک میں بجلی کے بحران کو حل کرنے میں مدد ملے گی۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ نئے ٹیکس سے کسان سب سے زیادہ متاثر ہوں گے کیونکہ وہ اپنے ٹیوب ویلز کو شمسی توانائی پر منتقل کررہے تھے، اگر ملک میں صاف توانائی کے استعمال کو تقویت دی جاتی ہے تو اس سے بین الاقوامی مالی مدد حاصل کرنے میں بھی مدد ملے گی۔انکا کہنا تھا کہ مقامی صنعت غیر معیاری آلات بنا رہی ہے اور یہ طلب بھی پوری نہیں کر سکتیا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ شمسی آلات پر ٹیکس لگانے کی بجائے اس پر سبسٹدی دے۔
اختر سولر لمیٹیڈ کے جنرل منیجر حامد گلریز نے تھامسن رائٹرز فاؤنڈیشن سے بات کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ وہ شمسی آلات کی ڈیمانڈ کو پورا نہیں کر سکتے ، تاہم انہوں نے کہا کہ وہ اپنی پیداوار بڑہا سکتے ہیں، اگر تمام آرڈرز درآمدکنندگان کو دینے کی بجائے انکو دیے جائیں۔انکا کہنا تھا کہ اگر حکومت شمسی توانائی کی درآمد پر ٹیکس برقرار رکھتی ہے تو تاجر پاکستان میں ہی اپنے پیداواری پلانٹس لگانا شروع کر دیں گے۔
عامر سعیدپاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں صحافی ہیں۔
Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.