In a district where just 5 percent have access to potable water, solar reverse osmosis is 'hardly less than a miracle'
مٹھی، پاکستان [تھامسن رائٹرز فائونڈیشن] - ایک تحقیق کے مطابق، پاکستان کے جنوب میں واقع صحرائی ضلع تھرپارکر میں بگڑتے ہوئی خوشک سالی کی وجہ سے ۸۰ فیصد سے زیادہ پانی کے ذخائرپینے کے قابل نہیں ہیں۔
اس سنجیدہ مسئلے کو حل کرنے کے لیے سندھ حکومت نے پانچ عشاریہ چار بلین روپے ۷۵۰ سلور واٹر ٹریٹمینت پلانٹ لگانے کے لیے مختص کیے ہیں اور اس منصوبے پر پہلے ہی کام شروع ہوچکا ہے، جس سے تقریبا ۱۵ لاکھ لوگوں کو پینے کے لیے صاف پانی مہیا ہوسکے گا۔
حکومتی ذرائع کے مطابق، یہ تمام واٹر پلانٹ اس سال جون کے آخر تک لگادیے جائیں گے۔
تھرپارکر کے ضلعی دارالحومت مٹھی کے رہائش پذیر، جہاں پر ایشیا کا بڑا سولر پاورڈ واٹر ٹریٹمینٹ پلانٹ کااس سال جنوری میں افتتاح کردیا گیا ہے، کہتے ہیں کہ اس پلانٹ کی بدولت مقامی لوگوں کی زندگیاں تبدیل ہونا شروع ہوگئی ہیں، جہاں پر بارشوں میں مسلسل کمی اور زیرزمیں پانی کے گرتے ہوئے ذخائر اور ان میں فلورائیڈ کی مقدار بڑھنے کی وجہ سے اموات میں اضافہ ہورہا ہے۔
کسی معجزے سے کم نہیں
مٹھی کے عقب میں واقع ایک گاوں کی رہائش پذیر پنتالیس سالہ ریکھا میگھواڑ مسکراتے ہوئے کہا کہ یہ کسی معجزے سے کم نہیں کہ اب مقامی لوگ صاف اور میٹھا پانی پی سکتے ہیں۔ وہ اس پلانٹ کے باہر لگی ٹانکی سے اپنے مٹکوں کو پانی سے بھرنے کے لیے اپنی باری آنے لیں انتظار میں کھڑی تھی۔
یہ کیپیسٹی کے لحاظ سے ایشیا کا بڑا سولر پاورڈ روراوسموسس واٹر ٹریٹمینٹ پلانٹ روزانہ ۳۰ لاکھ گیلن پانی صاف کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے، جومٹھی شہر اور اس کے آس پاس میں واقع ۸۰ دیہاتوں میں بسنے والے تین لاکھ لوگوں کی ضروریات پوری کرسکتاہے۔
یہ پلانٹ ۴۰۰ ملین روپے کی لاگت سے تعمیر کیا گیا ہے، جو خاص کر مقامی عورتوں کی مشکلات کو حل کرنے میں مددگار ثابت ہوگا، جو روزانہ دوردراز پانی کے کنوں سے پانی لانے کے لیے کئی کلومیٹر پیدل سفر کرنے کی مشقت کرتی ہیں۔
ایک اور سنیتا بھیل کہتی ہیں کہ مقامی عورتوں کو ایسی مشکلات سے نجات ملنا انتہائی خوشی کا باعث ہے۔
نقل مقانی کرنے والوں کی واپسی
مقامی لوگ کہتے ہیں کہ پانی کی عدم دستیابی کی وجہ سے جو مٹھی سے بئراج کے آس پاس علاقوں کی طرف نقل مقانی کرگئے تھے، وہ اب میٹھے اور صاف پانی کے دستیاب ہونے کی وجہ سے واپس آرہے ہیں۔
مٹھی سے کچھ کلومیٹرکی دوری پر واقع موڑے-جی-وانڈ گاوں کے رہائش پذیر ۶۵ سالہ کسان انیل کمار کہتے ہیں کہ اس دیہات اور کئی دوسرے آس پاس گاوں کے۸۰ فیصد لوگ گذشتہ چار سالوں کے دوران بارشیں نہ ہونے اور کنوئوں کے سوکھنے کی وجہ سے سندھ کے شمالی اور مشرقی علاقوں کی طرف نقل مقانی کرگئے تھے تاکہ وہ اپنی پیاس بجانے کے ساتھ ساتھ روزگار بھی حاصل کرسکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اب ایسے خاندان واپس آرہے ہیں، جیسے جیسے اُن کو پانی صاف کرنے کے اس بڑے پلانٹ کے بارے میں آگاہی آرہی ہے۔
دائو یونیورسٹی آف ہیلتھ سائینزاور پاکستان کائونسل فار سائنتیفک ائینڈ انڈسٹریئل ریسرچ کی ایک تحْقیق کے مطابق، تھرپارکر ضلع بھر میں پینے کے لائق صاف اور میٹھے پانی کی تقریبا ناہونا ایک انتہائی سنجیدہ مسئلہ ہے۔ ضلع کے بمشکل پانچ فیصد آبادی کو صاف اور بیماریوں سے پاک پانی تک رسائی ہے۔
اس تحقیق میں کہا گیا ہے کہ، پانی کی اس سنجیدہ صورتحال کی ایک اہم وجہ بارشوں کے نہ ہونے یا نارمل سے کم ہونے کی وجہ سے زیر زمین پانی کی لیول میں اضافہ نہ ہونے کی وجہ سے پانی میں فلورائیڈ کی مقدار میں اضافہ ہورہا ہے، جس سے ہڈیوں کی مختلف بیماریوں کے علاوہ کِئی دوسری بیماریاں بھی لوگوں میں واقع ہورہی ہیں۔ اور مختلف دیہاتوں میں زیرزمین پانی میں ایک لیٹر پانی میں فلورائیڈ کی مقدار ۱۳ ملی گرام سے زیادہ ہے۔ جب کہ فلورائیڈ کی نارمل مقدار ایک ملی گرام ہونی چاہیئے۔
صحت کے ماہرین کہتے ہیں کہ پینے کے پانی میں فلورائیڈ کی حد سے زیادہ مقدار سے ہڈیوں کا ٹیڑھاہونا، اُن میں در ہونا، دانتوں کا گرنا اور گردے کے مسائل جیسی بیماری ہوسکتی ہیں۔
کم بارشیں اور ندیوں کی عدم دستیابی
صحرائی ضلع تھرپارکرکے لوگوں، مال مویشی اور زراعت کا دارومدار بارشوں پر ہے۔ ضلع میں سالانہ تقریباً ۲۰۰ سے ۳۰۰ ملی میی میٹر کے درمیان بارش ہوتی ہے، جس کا ۸۰ فیصد ساون کی موسم کے دوران ہوتی ہیں۔ زیر زمین پانی اور کنوئوں کے خوشک ہونے سے بچنے کے لیے ان بارشوں کا ہونا انتہائی ضروری ہے، جو گذشتہ چار سالوں کے دوران معمول سے کم ہوئی ہیں۔
گلوبل واٹر چئرٹی - واٹرائڈ - کے پاکستان میں کنٹری مئنیجر، عبدالحفیظ کہتے نے حکومت سندھ کے ۷۵۰ واٹر ٹریٹمینٹ پلانٹ لگانے کے اقدام کو سرہاتے ہوئے کہا کہ کہ ضلع کے کے پانی کے مسائل کو موثر طریقے سے حل کرنے کے لیے رین واٹر ہارویسٹنگ کے لیے اقدامات اُٹھانے ہونگے، جس سے پانی کی کمی کو کافی حد تک قابو پاایا جاسکتا ہے۔
Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.
