×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

شمالی پاکستان میں گلیشیئر لیک پر نظر رکھنے والے رضاکارانہ گروپس کا زندگیوں کوبچانے میں کردار

by Saleem Shaikh and Sughra Tunio | @saleemzeal | Thomson Reuters Foundation
Tuesday, 10 March 2015 06:00 GMT

Villagers walk over a logs to cross a glacier-fed stream in the Bindo Gol valley, nearly 600 km northwest of Islamabad, Pakistan's capital. TRF/Saleem Shaikh

Image Caption and Rights Information

Locally led initiatives like this one in Pakistan's northern mountains have begun to spread in recent years

 

اسلام آباد [تھامسن رائٹرزفائونڈیشن]۔۔۔ گندم کاشتکار نورحُسین کے لیے یہ کسی بھی معجزے سے کم نہیں تھا کہ تقریباً نوں سوں افراد اور کئی سیکٹروں مال مویشیوں کی زندگیاں بروقت چراح بالا گاوں سے گلیشیئر لیک کے ٹوٹنے سے کچھ گنٹے پہلے نکلنے میں کامیاب ہونے کے باعث بچ گئیں۔

 

پنتالیس سالہ حُسین اس وقت ضلع گلگت کی حسین وادیء بگروٹ میں اپنی زرعی زمین میں کام کررہے تھے، جب ہزرد واچ گروپ کے کچھ مقامی نوجوان رضاکار ان اور دوسرے گاوں والوں کے پاس آئے اور ان تمام کو کہا کہ وادیء سے ایک کلومیٹر اوپر واقع گلیشیئر لیک کے ٹوٹنے کے باعث ہونے والے ممکنہ خطرات سے بچنے کے لیے وہ اس وادیء کے اوپر والے علاقوں میں چلے جائیں۔ تاہم، ایسا کرنے کے باعث وادی کے تمام لوگوں اور ان کے مال مویشی محفوظ رہے۔

 

بگروٹ میں دوبانی ڈوولپمنٹ آرگنائیزیشن مظہر حیات نے مسکراکر کہا کہ ایسا نے کرنے کی صورت میں زراعت، انفرااسٹرکچر اور لوگوں کی جانوں کو کافی نقصان ہوسکتا تھا۔ انہوں نے مزید کہا کہ، علاقے میں حال ہی میں تعمیر کیے گئے چھوٹے ڈیم، فلڈ کنٹرول دیواریں بھی اس نقصان سے بچنے میں مدد گار ثابت ہوئیں ہیں۔ تاہم، گلیشیئل لیک کے پھٹنے کی وجہ سے پچیس سالہ ایک اہم بگروٹ پل سیلابی ریلے کے ساتھ بحہ گئی۔

 

انہوں نے کہا کہ گاوں والوں کو کسی بھی نقصان سے بچانے کا سہرا اشور علی کو جاتا ہے جو مقامی دس رکنی ہزرڈ واچ گروپ کے سرگنہ ہیں۔

 

اشور علی نے تھامسن رائٹرز فائوندیشن کو بتایا کہ وہ اپنی ٹیم کے ہمراہ ہر ہفتے گلیشیئل لیک کو مانیٹر کرنے کے لیے اُس علاقے کا، جہاں یہ ایسی دوسری لیک واقع ہیں، دورہ کرنے جاتے ہیں تاکہ وہ خطرناک یا پھٹنے کے دہانے پر لیک کہ وقتً فوقتً معائنہ کرتے رہیں۔

 

گذشتہ سال مئی میں جب وہ علاقے کا دورہ کررہے تھے تو وہاں موجود چرواہ نے ان کی ٹیم کو بتایا کہ انہوں نے ایک گلیشیئل لیک دیکھی ہے جو پھٹنے کے دہانے پر ہے۔ جب اُس لیک کا معائنہ کیا تو میں اور میری ٹیم حیران رہ گئی، کیوںکہ بگروٹ وادی کے اوپر دران پیک کے پاس ایک گلیشئیل لیک بلکل ٹوٹنے کے دہانے پر تھی، ہم تیزی سے نیچے دوڑے اور گاوں والوں کو باخبر کیا جو وہاں سے، جہاں سے گلیشیئل لیکے کے پھٹنے کے نتیجے میں سیلابی ریلے کاگذر ہوا،نکلنے میں کامیاب ہوے۔

 

اشور علی کا کہنا ہے کہ حالیہ سالوں میں ایسی گلیشئیل لیک کے پھٹنے کے واقعات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔

 

خوفناک صورتحال

 

پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے تقریباً ۴۶۰ میل کے فاصلے پر واقع بگروٹ ۱۰ چھوٹے گاوں پر مشتمل ہے۔ مقامی لوگوں کے ذریعہ معاش گلیشیئل علاقے سے نکنلے والی کئی چھوٹی اسٹریم پردارومدار ہے۔۔ تاہم، شمالی علاقاجان میں درجہء حرارت کے بڑھنے کی وجہ سے کئی درجن گلیشئل لیک بن چکی ہیں، جن میں سے بہت ساری کسی بھی وقت ٹوٹ سکتی ہیں۔  

 

۲۰۱۱ میں شروع ہونے والے چار سالہ ایک ۶۔۷ ملین ڈالرز منصوبے کے تحت، ان گلیشیائی لیک کے ٹوٹنے کے خطرات پر مستقل نظر رکھنے کے لیے بگروٹ وادی میں مقامی نوجوان رضاکاروں پر مشتمل دس ہزرڈواچ گروپس بنائے گئے ہیں۔ یہ منصوبہ یواین اڈاپٹیشن فنڈ، یو این ڈی ڈوولپمنٹ پروگرام اور حکومت پاکستان کے مالی اور تکنیکی اشتراک سے شروع کیا گیا ہے، جس کا خاص مقصد پاکستان کے شمالی علاقوں میں گلیشیئر لیک کے پھٹنے کے خطرات کے اثرات سے نمٹنا ہے۔

 

اس منصوبے کے اہم افسر خلیل احمد کا کہنا ہے کہ شمالی علاقوں میں اس وقت تقریباً ۳۰۰۰ ایسے گلیشیئر لیک ہیں جو کسی بھی وقت پھٹ سکتے ہیں۔ یہ تعداد ۲۰۱۰ میں ۲۴۰۰ کے لگ بگ تھی۔

 

موسمیاتی تغیرات کے ماہریں کے مطابق، ان گلیشیئر لیک کے تعداد میں تیزی سے اضافے کی اہم وجہ درجہء حرارت میں اضافہ ہے۔

 

ارلی وارننگ

 

شمال مغربی صوبے خیبرپختونخواہ کے ضلع چترال کی وادیء بندوگول میں، ایسے ۱۰ ہزرڈ واچ گروپ ۲۰۱۳ میں بنائے گئے تھے۔

 

چترال میں ۵۵۰ گلیشئرزاور ۱۳۲ گلیشئل لیک پائی جاتی ہیں، جن میں سے ۲۰ پھٹنے کے دہانے پر ہیں۔

 

بندوگول وادی کے گہکیر گاوں کے عزیزاللہ چترالی ایک ایسے ۱۵رکنی ہزرڈواچ گروپ کی نمائندگی کرتا ہے، جو وادی کے گلیشیئل لیک پر نظر رکھے ہوئے ہیں اور ہر ہفتے ان کی مانیٹرنگ کرنے کے لیے جاتے ہیں۔

 

گلگت اور چترال کے ڈپٹی کمشنرز کہتے ہیں کہ وہ ایسے نئے ہزرڈ واچ گروپ بنانے پر غور کررہے ہیں، تاکہ شمالی علاقوں میں واقع گلیشئل لیک کے ممکنے خطرات پر کڑی نظر رکھی جاسکے۔

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->