×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

آلو کی زیادہ پیداوار پاکستانی کسانوں کے لئے مشکلات کا باعث بن گئی

by Aamir Saeed | @AamirSaeed_ | Thomson Reuters Foundation
Friday, 13 March 2015 06:32 GMT

Farmers harvest potatoes in the Gobor valley of Chitral, a district in Pakistan’s northwest Khyber Pakhtunkhwa province. THOMSON REUTERS FOUNDATION/Aamir Saeed

Image Caption and Rights Information

What do you do when climate adaptation efforts are too successful?

 

چترال، پاکستان (تھامسن رائٹرز فائونڈیشن) ۔۔ نادر شاہ کے لئے آلو کی فصل بیک وقت ایک نعمت بھی ہے اور پریشانی کا باعث بھی۔ 

 

دوسال پہلے جب اس کی گندم کی فصل سخت موسم کی وجہ سے خراب ہوگئی تو اس نے تجرباتی طور پر آلو  کاشت کرنے کا فیصلہ کیا جو اس کے لئے ایک بڑی کامیابی ثابت ہوا۔

 

اس کی گندم اور چارے کی عمومی پیداوار دس ٹن فی ہیکٹر سے بڑھ کر پچپن ٹن فی ہیکٹر ہوگئی اور اسی طرح اس کی آمدن میں بھی کئی گنا اضافہ ہوگیا۔ اس طرح، پہلی دفعہ اس نے اپنے بڑے بیٹے کو ایک پرائیویٹ سکول میں داخل کرانے کا فیصلہ کیا ہے۔

 

تاہم اس کامیابی کا ایک نقصان یہ ہو اہے کہ اسکے پڑوسی اور علاقہ کے دوسرے کسانوں نے بھی آلو کی کاشت کرنا شروع کردی ہے۔ اب وادی گبور میں جہاں نادر شاہ رہتا ہے تقریباً ساٹھ فیصد لوگ آلوکاشت کرتے ہیں۔ جسکے نتیجہ میں، اس کی قیمت کافی نیچے چلی گئی ہے اور بیج کافی مہنگا ہو گیا ہے۔ اب ہر شخص پریشان ہے کہ اتنی بڑی فصل کو ذخیرہ کیسے کیا جائے یا بیچنے کے لیئے کون سی منڈی کا رخ کیا جائے۔

 

پاکستان اور دنیا کے دوسرے حصوں میں کسانوں کے لئے ضروری ہے کہ وہ شدید موسم اور موسمیاتی تبدیلیوں سے نمٹنے کے لئے نئے طریقے اختیار کریں۔ لیکن، اس طرح کے اقدامات سے کچھ نئے مسائل بھی جنم لیتے ہیں جن سے نمٹنا بے حد ضروری ہے۔

 

پاکستان کے صوبہ خیبرپختونخواہ کی وادی گبور میں آلو کی فصل اس لئے بھی کسانوں کے لئے پریشانی کا باعث بن گئی ہے کیونکہ اس کی مارکیٹ تک رسائی اُن کو آٹھ کلومیٹر طویل سرنگ سے گزر کر صوبہ پنجاب کی نزدیک ترین منڈیوں تک جانا پڑتا ہے اور ان دنوں اس سرنگ کی مرمت ہورہی ہے اور ہفتہ میں صرف دو دن لوگوں کے گزرنے کے لئے کھولی جاتی ہے۔

 

ایک ریٹائرڈ سکول استاد اور کسان امیر حضار کا کہنا ہے کہ تاجروں اور ٹرکوں کو اپنا سامان منڈی تک لے جانے کے لئے ہفتہ میں پانچ دن انتظار کرنا پڑتا ہے اور اسی طرح وہ تاجر جو آلو کی فصل خریدنے کے لئے کسانوں کے پاس گبور وادی میں آنا چاہتے ہیں ان کو بھی انہی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

 

ٹرانسپورٹیشن کے مسئلوں اور علاقہ میں کولڈ سٹوریج نہ ہونے کی وجہ سے حضار کی تقریبا بیس فیصد فصل خراب ہو گئی ہے اور اسکا کہنا ہے کہ آلو ایک خراب ہونے والی فصل ہے اور اسے وہ اپنے گھر یا کھیت میں ایک ماہ سے زائد تک نہیں رکھ سکتے۔ جب وادی گبور میں موسم نسبتاً ٹھنڈا ہوتا تھا تو کسان کچھ آلو اپنے کھانے اور بیچ کے لئے ذخیرہ کرلیتے تھے۔ لیکن، اب موسم گرم ہونے کی وجہ سے جو آلو بروقت منڈی تک نہیں پہنچ پاتے وہ خراب ہو جاتے ہیں۔

 

شاہ نے موجودہ آلوؤں کی فصل سے تقریبا اسی ہزار روپے کمائے ہیں۔ اُس کا کہنا ہے کہ اس کی تقریبا آدھی آمدن بیج خریدنے پر خرچ ہو جائے گی کیونکہ طلب بڑھنے سے بیج کے نرخ بھی منڈی میں کافی بڑھ گئے ہیں۔ اس نے صوبائی حکومت اور این جی اوز سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وادی گبور میں کولڈ سٹوریج بنانے کے لئے کسانوں کی مدد کریں۔

 

ایگری فورم پاکستان کے چیئرمین ابراہیم مغل کا اندازہ ہے کہ پاکستان میں اس سال چھ ملین ٹن سے زائد آلو کی پیداوار متوقع ہے جبکہ ملک کی ضرورت صرف تین ملین ٹن ہے۔ اس فالتو پیداوار سے کسانوں کو کافی نقصان ہوا ہے۔ کیونکہ، ایک سو بیس کلو آلو کی قیمت گزشتہ سال کی نسبت چھ ہزار روپے سے کم ہو کر چار ہزار روپے پر آگئی ہے۔

 

انکا یہ بھی کہنا ہے کہ سہولت کا ر اور تاجر بھی کسانوں کے پاس کولڈ سٹوریج کی سہولت نہ ہونے کے باعث فالتو فصل خرید کر اپنے گوداموں میں بھر رہے ہیں اور اگلے دو یا تین ماہ میں بازار میں ایک مصنوعی قلت پیدا کر کے وہ یہی آلو دوبارہ چھ ہزار روپے فی ایک سو بیس کلو بیچنا شروع کردیں گے۔

 

صنعت و پیداوار کے پارلیمنٹری سیکرٹری راؤ اجمل خان کا کہنا ہے حکومت کو ملکی مارکیٹ میں آلو کی قیمتیں مستحکم رکھنے اور فارن ایکسچینج حاصل کرنے کے لیے اضافی آلو روس، مشرقی وسطی اور خلیجی ممالک کو برآمد کرنا چاہیے۔س

 

انہوں نے صوبہ پنجاب اور خیبرپختونخواہ حکومتوں کویہ بھی تجویز دی کہ وہ کسانوں کے ساتھ ملکر کولڈ سٹوریج بنائیں تاکہ تاجر اور سہولت کار کسانوں کا استحصال نہ کرسکیں۔

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->