×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

پاکستان کے پہاڑی گاوں میں پن بجلی گھرکے باعث جنگلات کی کٹائی اور موسمیاتی خطرات میں کمی

by Saleem Shaikh and Sughra Tunio | @saleemzeal | Thomson Reuters Foundation
Monday, 14 March 2016 07:06 GMT

"Now no one chops down trees to harvest fuelwood" - and women's lives are easier too, villagers say

 

احمدآباد، ہنزہ [تھامسن رائٹرزفائونڈیشن]- گل مھرین اپنے گھر کے باورچی خانے میں الیکٹرک چولہے پر چائے کیلٹل رکھتے ہوئِے مسکرارہی تھی۔

 

اپنے مہمانوں کے لیے وہ جب چائے بنارہی تھی، مہرین مہمانوں کے ساتھ تفریح میں مشغول تھی۔ وہ ان سے کہہ رہی تھی دیکھیں جب سے گاوں میں پن بجلی گھر لگا ہے، تب سے چائے بنانا بھی مزیدار کام ہوگیا ہے۔ اُن کے مہمان گل مہرین سے اتفاق میں سر ہلارہے تھے۔ وہ سب ملکر قہقے مارہے تھے۔

 

آٹھ ہزار میٹر برف سے ڈھنپے حسین ترین راکاپوشی پہاڑکے بلکل سامنے ہنزہ ندی کے اوپرواقع اس گاوں کی عورتوں کو جلانے کے لیے لکڑی کی تلاش میں طویل دوری طئے کرنا پڑتا تھا جو انتھائی کٹھن کام ہوا کرتا تھا۔

 

گل مہرین نے تھامسن رائٹرز کو بتایا کہ مگر گذشتہ آٹھ سالوں سے کمیونٹی سطح کے پن بجلی گھر کے بدولت اب ہم گاوں والوں کی زندگی انتہائی آسان ہوگئی ہے۔  اب انے کے گھر میں بجلی پر چلنے والا چولہا، انرجی سیوربلب اور واشنگ مشین کی سہولیات موجود ہیں۔ 

 

انہوں نے مزید کہا کہ اس پن بجلی گھرکی ہماری زندگی میں غیر معمولی اہمیت ہے۔ 

 

اس گاوں کو یہ سہولت پر آغاخآن رورل سپورٹ پروگرام اور پاکستان پاورٹی الیویئیشن فنڈ کی جانب سے امریکی سرکاری محکمہ زراعت کی جالی و تکنیکی مدد سے سال دوہزار آٹھ میں شروع ہوا تھا جس نے تین سال کے عرصے میں کام شروع کردیا تھا۔

 

تقریباً ۱۹۰ کلوواٹ کے اس پن بجلی گھر سے احمدآباد، سلطان آباد اور فیض آباد پہاڑی دیہاتوں کے کُل ۲۵۴ گھروں کو بجلی میسر ہوگئی ہے۔ 

 

اس پن بجلی گھر کے مقامی ماحول پر غیر معمولی مثبت اثرات مرتب ہورہے ہیں۔ 

 

زیادہ درخت سے ماحولیاتی خطرات میں کمی

 

گلگت بلتستان ریجن کے ان گاوں والوں کی زندگی آسان ہونے کے علاوہ، جنگلات کی کٹائی مکمل طور پر رکنے کے ساتھ ساتھ لینڈسلائیڈنگ میں بھی واضع کمی ہوئی ہے۔ 

 

مقامی ماحولیاتی ماہر غلام رضا کا کہنا ہے کہ اب کوئی بھی شخص ان تنیوں گاوں میں لکڑی نہیں کاٹتا۔ جس کے نتیجے میں قدرتی جنگلات کو دوبارہ پھلنے پھولنے کا موقع فراہم ہوگیا ہے۔ 

 

سماجی کارکن غلام سرور کہتے ہیں کہ اب اس پن بجلی گھر نے احمد آباد گاوں کو روشنیوں کا گاوں بنادیا ہے، جہاں پر رات کو اندھیرے کا راج ہوتا تھا۔ ہمارے بچے اب رات کے وقت بھی اسکول کا کام پورا کرتے ہیں۔ اور اب اسکول کے بچوں کو اسکول سے بھی غیر حاضر نہیں رہنا پڑتا کیوںکہ اب ان کو اپنی ماوں اور بہنوں کے ساتھ لکڑی کی تلاش میں نہیں جانا پڑتا۔ 

 

آغاخان رورل سپورٹ پروگرام کی شہانہ خان کا کہنا ہے کہ اس پن بجلی گھر کو اس گاوں کے رہائشی ہی چلاتے ہیں اور اس کی دیکھ بھال بھی یہ ہی لوگ کرتے ہیں۔ 

 

ان کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ایسے سیکڑوں پہاڑی گاوں ہیں جہاں پر ایسے پن بجلی گھر بنائے جاسکتے ہیں مگر اس کے لیے حکومتی عزم کی ضرورت ہے۔

 

پاکستان متبادل ذرائع توانائی کے محکمے کے اعدادوشمار کے مطابق، پاکستان میں اب بھی تقریباً ایک لاکھ پن بجلی بنائی جاسکتی ہے۔ 

 

آغا خان رورل سپورٹ پروگرام کے جمیل الدین کہتے ہیں کہ ان کی غیر سرکاری تنظیم  پاکستان متبادل ذرائع توانائی کے محکمے اور پاکستان پاورٹی الیویئشن فنڈ کی تعاون سے ایک سو سے زیادہ کے ایسے پن بجلی کے منصوبے گلگت بلتستان اور چترال کے پہاڑی علاقوں میں بنانے کا منصوبہ تیار کردیا ہے۔ اور اس مقصد کے لیے مالی مدد بھی تقریباً حاصل ہوگئی ہے۔ 

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->