×

Our award-winning reporting has moved

Context provides news and analysis on three of the world’s most critical issues:

climate change, the impact of technology on society, and inclusive economies.

پاکستان میں تعلیمی اداروں کو موسمی تباہ کاریوں سے بچانے کے لیے منصوبہ تیار

by Saleem Shaikh and Sughra Tunio | @saleemzeal | Thomson Reuters Foundation
Monday, 24 October 2016 05:49 GMT

Ali Zamin Samejo, sitting in centre, checks a child's notebook in his open-air school under a tree in Ghorabari, in flood-prone Thatta district, about 200 kilometres from Karachi. TRF/Saleem Shaikh

Image Caption and Rights Information

Effort to cut child deaths includes new construction standards for schools, evacuation drills and putting climate risks into the curriculum

 

سجاول، پاکستان [تھامسن رائٹرزفائونڈیشن] - سائنس مضمون کے استاد علی ضامن سمیجو اس وقت گہرے صدمے کا  شکار ہوئے جب انکی نظراپنے گاوں میں تیزبارش کے باعث پیدا ہونے والے سیلاب سے تباہ ہونے والے اپنے اسکول پر پڑی تھی۔ وہ بہوش ہوکر زمین پر گرپڑے تھے۔ 

 

انہوں نے کہا کہ وہ کچھ ہی منٹوں میں بے ہوش ہوکر زمین پر گرپڑے تھے جب ان کی نظر سیلاب سے تباہ شدہ اسکول پر نظر پڑی۔ 

 

ان کو جس چیز کی سب سے زیادہ پریشانی ہوئی تھی وہ جنوبی سندھ کے ضعلہ سجاول کے گاوں گوڑاباری میں واقع اسکول، جو سال دوہزار دس میں سیلاب سے تباہ ہوتھا، میں پڑھنے کے لیے آنے والے بچوں کا مستقبل تھا۔ 

 

سیلاب کو چھہ سال گزرنے کے باوجود، علی ضامن اب تک اسی گاوں میں  کھلے آسمان ایک درخت کے نیچے اپنے شاگردوں کو تعلیم دیتے ہیں۔ 

 

باربار سیلاب سے دوچارہونے والے پاکستان میں تعلیمی ادارے سیلاب کی تباہ کاریوں سے بار بار متاثر ہورہے ہیں۔  

 

نیشل ڈزاسٹرمئنجمنٹ اتھارٹی کے مطابق، سال دوہزار دس اور دوہزار پندرہ کے درمیان پانچ سیلاب سے ملک بھر بیس ہزار کے لگ بگ اسکول تباہ ہوئے تھے۔

 

تاہم، تعلیمی اداروں کو موسمی تباہ کاریوں سے محفوظ رکھنے کے لیے ایک نیا منصوبہ تیار کرلیا گیا ہے جو سال دوہزار سترہ میں عمل میں لایا جائے گا۔ اس منصوبے کا خاص مقصد تعلیمی اداروں کی تعمیری عمل میں بہتری لاکر ان کی تعمیر کو کلائمیٹ رزیلئنٹ بنانا ہے ۔ اس کے علاوہ، ان تباہ کاریوں،  ان کے اثرات اور ان سے نمٹنے کے سلسلے میں اسکلوں کے بچوں اور اساتذہ میں آگاہی پیدا کرنا ہے۔ 

 

اس منصبوے کے تحت، ڈزاسٹر رسک رڈکشن کو تعلیمی نصاب میں شامل کرلیا جائے گا۔   

 

نیشل ڈزاسٹرمئنجمینٹ اتھارٹی کے سربراہ میجرجنرل اصغر نواز کہتے ہیں کہ اس منصوبے کی وفاقی اور صوبائی حکومت نے تائید کردی ہے اور اس بات کی یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ اس منصوبے کو عمل میں لانے کے لیے تعاون کرین گے۔ 

 

انہوں نے تھامسن رائٹرز کو مزید بتایا کہ یہ منصوبہ یونیسیف کے تعاون سے تیار کیا گیا ہے۔ 

 

این ڈی ایم اے کے چیرمین نے کہا کہ اس منصوبے کی کامیابی سے عمل میں لانے کے لیے اسکلوں کی انتظامیہ اورسیاسی عزم اور وفاقی حکومت کی جانب سےبروقت فنڈنگ کی فراہمی لازمی ہے۔ 

 

آغاخان رورل سپورٹ پروگرام کی شاہینہ خان کہتی ہیں کہ ماضی کی حکومتوں کا ایسے منصوبوں کو عملی جامع پہنانے کے حوالے سے رویہ کچھ حوصلہ افزاہ نہیں ہے۔ کیوں کہ اس منصوبہ کا بھی حال وہ ہی ہوسکتا ہے جو ایسے دوسرے منصوبوں کہ ہوا ہے۔ جس کی خاص وجہ حکومتوں کا ایسے منصوبوں میں عدم دلچسپی ہے۔ 

 

تاہم انہوں نے کہا کہ اس منصوبے کو عمل میں لانے کے لیے  گرین کلائمیٹ فنڈ اور اڈپٹیشن فنڈ سے فنڈنگ حاصل کی جاسکتی ہے۔

 

اقوام متحدہ کے ترقیاتی پروگرام کے پاکستان میں ڈپٹی کنٹری ڈائریکٹرامان اللہ خان کہتے ہیں کہ اس منصوبے کی روشنی میں اسکولوں کی انتظامیہ، اساتذہ اور شاگردوں کو ڈرلز کے ذریعے موسمیاتی تباہکاریوں کے اثرات سے بچنے کے لیے ایک موثر اقدام ثابت ہوسکتا ہے۔ 

 

ان کا مزید کہنا ہے کہ اس کا فائدہ یہ بھی ہوگا کے اس طرح بچوں کے ذریعے ان کے خاندان کو بھی سیلاب جیسی تباہ کاریوں سے بچنے کے مطعلق آگاہی دی جاسکتی ہے۔

Our Standards: The Thomson Reuters Trust Principles.

-->